پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں مسلسل تیزی کا رجحان دیکھا جارہا ہے جہاں 100 انڈیکس 61 ہزارپوائنٹس کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے، آج کاروبار کے آغازپر 100 انڈیکس میں 3 سو 23 پوائنٹس کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
معاشی ماہرین کے مطابق سرمایہ کاری اور مختلف فنڈز کے اجراء سے اسٹاک مارکیٹ مثبت انداز میں آگے بڑھ رہی ہے، آئی ایم ایف کی مانیٹرنگ ٹیم بھی اس وقت پاکستان میں موجود ہے اور ٹیکس وصولی سے متعلق ایف بی آر سے مذاکرات بھی ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے تاثر ہے کہ اسمگلنگ کو روکنے کے لیے ایف بی آر کے اندر ہی ایک اور ادارہ تشکیل دیا جا سکتا ہے، جس کے لیے عین ممکن ہے کہ تین آرڈیننس متعارف کرائے جائیں۔
معاشی ماہر محسن مسیڈیا کے مطابق نگراں وزیراعظم اپنے متحدہ عرب امارات کے کامیاب دورے کے بعد کویت پہنچ گئے ہیں، جہاں کچھ اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط متوقع ہیں اور بڑی سرمایہ کاری پاکستان کا رخ کرسکتی ہے جس کے نتیجے میں آگے مزید بہتر صورت حال دیکھنے کو ملے گی۔
معاشی ماہرین کے مطابق آئندہ برسوں میں پاکستان کو سب سے بڑا چیلنج ماحولیاتی تبدیلی کا درپیش ہوگا، کلائمٹ چینج کانفرنس سمٹ میں 2030 تک پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے 348 ارب ڈالر کی ضرورت کا تخمینہ لگایا گیا تھا، پاکستان کو اس طرف نہ صرف توجہ دینی ہے بلکہ اس پر ہنگامی طور پر کام کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیں
عالمی بینک کی جانب سے جاری کردہ پاکستان سے متعلق ایک جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پالیسیاں ذاتی مفادات کے لیے بنائی جاتی ہیں، اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کا انرجی سیکٹر ناقابل اعتبار ہو چکا ہے، عالمی بینک کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی مخالفت کرتے ہوئے لائن لاسز کو کنٹرول کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
عالمی بینک کی اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے معاشی ماہر منور مرزا کا کہنا ہے کہ عالمی بینک کا کام ہے ہمیں قرض دینا اور اپنے مقررہ وقت پرواپس لینا ہے، اس طرح کی رپورٹس کسی بھی ملک کے حوالے سے کسی بینک کو زیب نہیں دیتی۔
نگراں حکومت کے آنے کے بعد بظاہر پاکستانی معیشت بظاہر بہتراندازمیں مستحکم ہوتی نظرآرہی ہے لیکن معاشی ماہرین کے مطابق آنے والا سال بہت ہٹ کر ثابت ہوگا کیوں کہ ملک کو بیرونی ادائیگیاں کرنا ہوں گی، اور ماحولیاتی مسائل کے ساتھ دیگر مسائل کو حل کے لیے بہت سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔
ماہرین کے مطابق حکومت سنجیدہ تو دکھائی دے رہی ہے لیکن مزید محنت کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف درپیش چیلنجز کا سامنا کیا جاسکے بلکہ اپنے پیروں پر بھی کھڑا ہونا ممکن بنایا جاسکے۔