عمران خان کے بغیر تحریک انصاف کا مستقبل کیا ہوگا؟

جمعرات 30 نومبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اعلان کیا کہ عمران خان توشہ خانہ کیس کا فیصلہ آنے تک پی ٹی آئی کی چیئرمین شپ سے دستبردار ہو گئے ہیں اور بیرسٹر گوہر کو 2 دسمبر کو ہونے والے انٹرا پارٹی الیکشن میں چیئرمین کے امیدوار کے لیے نامزد کر دیا گیا ہے۔

اس اعلان سے ایک روز قبل ہی پی ٹی آئی کے سینیئر نائب صدر شیر افضل خان مروت نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں عمران خان کی جانب سے پارٹی کی سربراہی چھوڑنے اور انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے چیئرمین شپ کے امیدوار کا نام بتا دیا تھا۔ تاہم پی ٹی آئی کے ترجمان شعیب شاہین نے ان کے بیان کی تردید کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا تھا کہ نئے پارٹی چیئرمین کے نام پر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔

ترجمان کی تردید اور ایک دن بعد پارٹی  کی جانب سے نگراں چیئرمین کے اعلان سے جہاں پارٹی رہنماؤں کے مابین کمزور روابط پر روشنی پڑی، وہیں پی ٹی آئی کے خدشات اور تحفظات بھی ابھر کر سامنے آئے کیونکہ سینیئر لیڈرشپ اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ پارٹی کے روح رواں تو بہرحال عمران خان ہیں جن کی حیثیت اس ڈوری کی سی ہے جس نے تحریک انصاف کی تسبیح کو باہم پروئے رکھا ہے اور ان کے بغیر یہ مالا جڑی رہنا ایک انہونی ہے۔

شیر افضل نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں سزا ہو چکی ہے اس لیے آئین کے مطابق وہ پارٹی چیئرمین کا الیکشن نہیں لڑ سکتے ہیں۔ یہی بات پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما بیرسٹر علی ظفر نے گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی اور بیرسٹر گوہر کے انتخاب کو عمران خان کا فیصلہ قرار دیتے ہوئے اسے ایک ’عارضی سیٹ اپ‘ قرار دیا۔

عمران خان کے اس فیصلے پر وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سینیئر صحافی مظہر عباس نے کہا کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین کے عہدے کے لیے اگر کوئی اہل امیدوار ہو سکتا تھا تو وہ حامد خان تھے جو تحریک انصاف کے بانیوں میں سے ہیں اور جنہوں نے پارٹی کا آئین بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی خدشہ ظاہر کیا کہ پارٹی کے سینیئر رہنماؤں کو چھوڑ کر جو سینیٹر گوہر کو نامزد کیا گیا ہے تو کہیں وہ بھی عثمان بزدار نہ ثابت ہو جائیں۔

عمران خان کی سربراہی کے بغیر تحریک انصاف کے تصور پر بات کرتے ہوئے مظہر عباس کا کہنا تھا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پارٹی چیئرمین یا اس عہدے کا امیدوار کون ہے۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ جو بھی سیٹ اپ ہو یا جو بھی امیدوار ہوں انہیں عمران خان کی مکمل حمایت حاصل ہو۔

مظہر عباس نے کہا کہ عمران خان کی مرضی کے لوگ ہونگے تو پارٹی کے رہنما اور سپورٹرز اس پینل کی بھرپور سپورٹ کریں گے۔ اس کی مثال دیتے ہوئے مظہر عباس نے کہا کہ سنہ 2002 میں جب بینظیر بھٹو جلاوطنی کے باعث الیکشن نہیں لڑ سکی تھیں تو انہوں نے مخدوم امین فہیم کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز بنا کر انتخابات میں حصہ لیا تھا اور ق لیگ کے بعد سب سے زیادہ ووٹ لینے میں کامیاب ہوئی تھیں۔ مظہر عباس کے مطابق عمران خان کے پارٹی چیئرمین رہنے یا نہ ہی رہنے سے پارٹی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

عمران خان کی بطور چیئرمین دستبرداری کے بعد پارٹی کے مستقبل کے حوالےسے سینیئرصحافی احمد ولید کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہا ہے کہ اس کے رہنما، ورکرز، سپورٹرز حتیٰ کہ خود اس کے چیئرمین یہ سمجھتے تھے کہ عمران خان ہے تو پارٹی ہے، وہ نہیں تو پارٹی بھی نہیں۔ یہی وجہ تھی کہ جب عمران خان پر پی ٹی آئی کے کسی لیڈرکی طرف سے کبھی تنقید کی جاتی یا ان کے کسی فیصلے سے اختلاف کیا جاتا تو اس کے سپورٹرز اس لیڈر کو یا تو کسی اور سیاسی پارٹی کا طرفدار ٹھہراتے یا پھر اس عمران خان کے خلاف سازش قرار دیتے۔

احمد ولید کے مطابق پی ٹی آئی مکمل طور پر عمران خان کی صوابدیدی پارٹی تھی اور وہ اپنی من مانی کو پوری طرف انجوائے کر رہے تھے۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ عمران خان کی بطور چیئرمین دستبرداری سے پی ٹی ائی کو کسی بڑے نقصان کا سامنا ہو سکتا ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ اور باقی سیاسی جماعتیں اس تاک میں تھیں کہ پی ٹی آئی کی لیڈرشپ تبدیل ہو تا کہ وہ نئے چیئرمین کو مینوور کر کے اپنے معاملات طے کر سکیں۔ دوسری جانب پارٹی رہنماؤں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سینیٹر گوہر ڈمی چیئرمین ہوں گے اور اصل فیصلے عمران خان ہی کریں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ پی ٹی ائی کے حق میں بہتر ہوگا وگرنہ پی ٹی آئی کے مفادات خطرے میں ہونگے۔

احمد ولید کا یہ بھی کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں پی ٹی ائی چونکہ یہ شکایت کرتی آرہی ہے کہ وہ زیر عتاب ہے اور اس کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ الیکشن کا بائیکاٹ بھی کر لے یا پھر انتخابات میں حصہ لے اور بعد میں نتائج  کو چیلنج کر دے لیکن چونکہ پی ٹی آئی کو حال ہی میں نیشنل اسمبلی سے استعفے دے کر یہ سبق حاصل ہو چکا ہے کہ فورم چھوڑنے سے نقصان ہی ہوتا ہے تو یہی امید کی جا سکتی ہے کہ وہ انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کی بے وقوفی نہیں کرے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ صورتحال سے تو یہی لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کا مکمل صفایا ہونے جا رہا ہے اور خاص طور عمران خان کی پارٹی چیئرمین سے دستبرداری کے بعد پارٹی کا مستقبل شدید خطرے کا شکار دکھائی دیتا ہے لیکن سیاست جلدی ختم ہونے والا کھیل نہیں ہے یہ ٹیسٹ کرکٹ کی مانند ہے اور پی ٹی ائی دوبارہ اپنی جگہ بنا سکتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ویسے بھی جب تک کہ خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کی  جگہ لینے کی صلاحیت رکھنے والی کوئی سیاسی جماعت سامنے نہیں آتی، پی ٹی آئی کے وجود کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور یہ دوبارہ اقتدار کے ایوانوں میں اپنی جگہ بنا سکتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp