سال 2023 عدالتی محاذ پر بڑا سرگرم سال رہا۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس سے اس سال بہت سے ایسے فیصلے آئے جن سے ملک کی سیاست کا رخ تبدیل ہوگیا۔
اس سال جہاں سپریم کورٹ آف پاکستان میں ججز کے مابین گہری تقسیم اور اختلافات سامنے آئے وہیں 3 نومبر کو سپریم کورٹ کی جانب سے 8 فروری 2024 کو انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد ملک میں انتخابات کے حوالے سے قیاس آرائیوں کا باب بھی بند ہوا اور 15 دسمبر کو لاہور ہائی کورٹ کے ریٹرننگ افسران سے متعلق حکمنامے کو معطل کر کے سپریم کورٹ نے عام انتخابات کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو بظاہر دور کر دیا۔
علاوہ ازیں سال 2023 سپریم کورٹ میں اہم مقدمات میں عدالت عظمیٰ کی جانب سے نیب ترامیم کیس اور فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل سمیت کئی بڑے مقدمات کے فیصلے ہوئے جبکہ سپریم کورٹ نے پہلی بار عدالتی کاروائی لائیو دکھائی۔
سال 2023 عمران خان کو سزا، نواز شریف بری
عدالتی محاذ پر جہاں اس سال 5 اگست کو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو توشہ خانہ مقدمے میں 3 سال قید کی سزا سنائی گئی وہیں 29 نومبر کو پاکستان مسلم لیگ نواز کے قائد، میاں نواز شریف کو پہلے ایون فیلڈ اور اس کے بعد 12 دسمبر کو العزیزیہ کرپشن ریفرنس سے بری کر دیا گیا۔
توشہ خانہ مقدمے میں عمران خان کو سنائی گئی جو اسلام آباد ہائیکورٹ نے 29 نومبر کو معطل کر دی جبکہ 22 دسمبر کو سائفر مقدمے میں عمران خان کی ضمانت منظور ہونے کے بعد اب ان کی رہائی میں بظاہر القادر ٹرسٹ مقدمے میں گرفتاری سد راہ ہے جس کے لیے اپیل سپریم کورٹ میں دائر ہو چکی ہے۔
’گڈ ٹو سی یو خان صاحب‘
اسی سال مئی میں چیئرمین پی ٹی آئی کی 9 مئی کو ہونے والی گرفتاری پر سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس عمر عطاء بندیال نے نوٹس لیتے ہوئے ان کی 2 گھنٹے میں عدالت حاضری اور پھر رہائی کا حکم جاری کیا۔ عمران خان کی آمد پر جب جسٹس بندیال نے انہیں ’گڈ ٹو سی یو خان صاحب‘ کہا تھا جس پر سپریم کورٹ کو خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
سال 2023 سپریم کورٹ میں کیا کچھ ہوا؟
سپریم کورٹ میں سب سے بڑی تبدیلی 17 ستمبر کو ہوئی جب کئی تنازعات کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے چیف جسٹس کا منصب سنبھالا اور دوسرے دن 18 ستمبر کو پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کو لائیو ٹرانسمیشن کے ذریعے سماعت کے لیے مقرر کیا۔ سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو منظور کر کے چیف جسٹس کے ازخود نوٹس اور بینچوں کے تشکیل کے اختیارات 3 رکنی کمیٹی کے حوالے کر دیے۔ جبکہ اس سے پہلے جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے اس قانون پر حکم امتناع جاری کیا ہوا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے اہم اقدامات
سپریم کورٹ کی جانب سے پہلی مرتبہ ججز تقرری کے لیے قائم جوڈیشل کمیشن اجلاس کی کارروائی کی تفصیلات پبلک کی گئیں جبکہ ججز کے خلاف شکایات کا جائزہ لینے والی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا بھی باقاعدہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی درخواست پر ان کے خلاف کارروائی کو کھلی عدالت میں چلایا گیا. چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے خط کے ذریعے چیف جسٹس کو دستیاب ایک مرسیڈیز اور لینڈ کروزر کو بھی نیلام کرنے کا حکم دیا۔
اسی طرح چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد وکلا کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان بار کونسل اور اٹارنی جنرل پاکستان سے مقدمات سماعت کے لیے مقرر کرنے کے حوالے سے مشاورت کا بھی آغاز کیا اور سپریم کورٹ میں مقدمات کے مقرر کرنے کے حوالے سے ترجیحات طے کیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی ہفتہ وار رپورٹ جاری کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔
مزید پڑھیں
چیف جسٹس کا جمہوریت کے لیے عزم
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے 11 اپریل 2023 کو چیف جسٹس بننے سے قبل پارلیمنٹ سے خطاب کیا جس کی وجہ سے کافی تنازع پیدا ہوا لیکن چیف جسٹس بننے کے بعد سے وہ نہ صرف انتخابات اور جمہوریت کے حق میں فیصلے دیتے نظر آئے بلکہ انہوں نے اپنے اختیارات بھی 3 رکنی کمیٹی کے حوالے بھی کر دیے جس سے سپریم کورٹ میں جمہوری کلچر کا فروغ ہوا۔
سپریم کورٹ سماعتوں کے دوران بھی وہ جمہوریت اور آئین کے بارے ہی میں بات کرتے نظر آتے ہیں۔
190 ملین پاؤنڈ کیس
23 نومبر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ بحریہ ٹاؤن کراچی زمین کی مکمل قیمت ادا کرے اور برطانیہ سے آنے والے 190 ملین پاؤنڈ حکومت پاکستان کے خزانے میں جمع ہوں گے نہ کہ بحریہ ٹاون کراچی کی جانب سے جرمانے کی رقم تصور ہوں گے۔
اس کے علاوہ فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس پر دھرنے کے محرکات جاننے کے لیے سپریم کورٹ نے کمیشن بنانے کا حکم بھی دیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ کی جانب سے وراثت اور حق مہر سے متعلق اہم فیصلے جاری کیے گئے۔
اس کے علاوہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سرکاری افسروں کے نام کے ساتھ صاحب کا لفظ استعمال کرنے پر پابندی عائد کی۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ دنوں عدالت عظمی کے لیے اعلیٰ عدلیہ کا لفظ استعمال کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی۔
سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل
سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے دور میں شروع ہونے والا یہ مقدمہ بنیادی طور پر 9 مئی کے واقعات کے حوالے سے گرفتار سویلین ملزمان کے ٹرائل کے حوالے سے ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں ایک بینچ نے فیصلہ دیا کہ سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہو سکتا جبکہ 13 دسمبر کو جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں اس فیصلے کے خلاف اپیلوں پر سماعت کرتے ہوئے سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی مشروط اجازت دی۔
جسٹس بندیال کا دور اور تنازعات
2023 کے آغاز میں جسٹس عمر عطاء بندیال سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے جن کا دور کئی حوالوں سے تنازعات کا شکار رہا اور مختلف سیاسی جماعتیں تو ایک طرف ان کے ساتھی ججز بھی کھل کر زبانی اور تحریری صورت میں ان پر تنقید کرتے نظر آتے۔ خاص طور پر موجودہ چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے جسٹس بندیال کے فیصلوں پر کھل کر تنقید کی۔
اس سال فروری۔مارچ سے ججوں کے مابین تنازعات نے مزید شدت اختیار کر لی جس سے سپریم کورٹ کا بحیثئت مجموعی تاثر خراب ہوا اور عدالتی احکامات پر عمل درآمد کی رفتار میں بھی کمی دیکھنے میں آئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے چیف جسٹس بننے کے بعد گو کہ سپریم کورٹ ججز کے درمیان اختلافات کے حوالے سے خبریں آتی رہتی ہیں جیسے کہ چیف جسٹس اور جسٹس اعجازالاحسن کی طرف سے جاری کیے جانے والے خطوط اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل پر عدم اعتماد کا اظہار لیکن اب اس تقسیم میں اتنی شدت موجود نہیں جتنی جسٹس بندیال کے دور میں تھی۔
جسٹس بندیال کا 3 رکنی بینچ اور انتخابات
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے دور کی سب سے متنازعہ چیز ان کا 3 رکنی بینچ تھا۔ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد اسی 3 رکنی بینچ نے پہلے 30 اپریل اور الیکشن کمیشن کی اپیل کے بعد 14 مئی کو انتخابات کا حکم جاری کیا۔ پھر اس مقدمے میں الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست مسترد کرتے ہوئے 14 مئی کو انتخابات کا فیصلہ برقرار رکھا لیکن حیران کن طور پر کسی کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی نہیں کی گئی۔
پنجاب الیکشن التوا کیس میں ایک اور بحث شدت اختیار کر گئی تھی کہ آیا یہ فیصلہ چار تین کی اکثریت سے مسترد ہو چکا ہے یا دو تین کی اکثریت سے منظور کیونکہ کچھ ججوں نے اس بنا پر یہ مقدمہ سننے سے معذرت کر لی تھی کہ اس مقدمے کو ازخود اختیارات کے تحت سننا سپریم کورٹ کا اختیار نہیں۔ بالآخر اس مقدمے اور انتخابات سے متعلق مقدمات کا فیصلہ 3 نومبر کو کردیا گیا جب چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ کے اعلان اور صدر مملکت سے مشاورت پر آمادہ کیا اور پھر 8 فروری کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا گیا۔