سال 2023ء کا سورج غروب ہونے والا ہے۔ معاشی طور پر اور امن و امان کے لحاظ سے ملک کے لیے یہ ایک مشکل سال ثابت ہوا ہے۔ گزشتہ 2 برسوں کی نسبت 2023ء میں دہشتگردی کے واقعات میں 30 سے 40 فیصد اضافہ ہوا۔
دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ
خیبر پختونخوا کے انسداد دہشتگردی کے ادارے (سی ٹی ڈی) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، صوبے میں اس سال دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا، رواں سال دہشتگردی کے 572 واقعات رونما ہوئے جو گزشتہ 3 برس کے دوران سب سے زیادہ ہیں۔
پولیس دستاویزات کے مطابق، گزشتہ 3 سال کے دوران صوبے میں دہشتگردی کے ایک ہزار سے زائد واقعات رونما ہوئے۔ 2021ء میں 260، 2022ء میں 495 اور 2023ء میں اب تک 572 واقعات پیش آئے جن میں 23 خودکش حملے بھی شامل ہیں۔
پولیس اور سیکیورٹی فورسز پر حملے
پولیس کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق، 2023ء میں سب سے زیادہ 243 حملے پولیس پر ہوئے جس میں 184 جوان اور افسران شہید جبکہ 408 زخمی ہوئے۔ پولیس رپورٹ کے مطابق، رواں سال دیگر سیکیورٹی فورسز پر 209 حملے ہوئے۔
سی ٹی ڈی حکام کے مطابق، دہشتگرد حملوں کے پس پردہ کالعدم ٹی ٹی پی، داعش اور دیگر تنظیمیں ہیں جو افغانستان سے سرگرم ہیں۔ پولیس کے مطابق، گزشتہ 3 سال میں ہونے والے دہشتگرد حملوں میں پولیس اور سیکیورٹی فورسز کو زیادہ ٹارگٹ کیا گیا۔
بڑے دہشتگرد حملے
صوبہ خیبرپختونخوا میں سال 2023ء کا آغاز ہی دہشتگردی کے ایک بڑے اور افسوس ناک واقعہ سے ہوا۔ 30 جنوری کو پشاور کے ہائی سیکیورٹی زون میں پولیس لائنز کی مسجد میں نماز ظہر کے دوران زوردار دھماکہ ہوا۔ پولیس تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ یہ حملہ خودکش تھا جس میں 84 نمازی شہید ہوئے جو کہ پولیس اہلکار تھے۔
مزید پڑھیں
اعداد و شمار کے مطابق، سال 2023ء میں 23 خودکش حملے ہوئے۔ پولیس لائنز کے بعد باجوڑ میں جمعیت علما اسلام (جے یوآئی) کے ورکرز کنونشن میں ہونے والا خودکش حملہ دوسرا بڑا حملہ تھا جس میں سیاسی کارکنان کو نشانہ بنایا گیا۔
سی ڈی ٹی کے مطابق چند دن پہلے ڈی آئی خان میں سکیورٹی فورسز کے کمپاؤنڈ پر کیا جانے والا حملہ بھی ایک بڑا واقعہ تھا جس میں خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی گیٹ سے ٹکرا دی جبکہ دہشتگرد فائرنگ کرتے ہوئے کمپاؤنڈ کے اندر داخل ہوگئے۔
رواں برس ملک میں ہونے والے دہشتگرد حملوں کی افغانستان سے بھی سہولت کاری کی گئی۔ افغانستان کے سرحدی ضلع چترال کے علاقے کیلاش اور دروش میں دہشتگرد حملوں کو سیکیورٹی فورسز نے ناکام بنا دیا تھا۔
تحریک جہاد پاکستان
رواں سال دہشتگرد حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیموں کی فہرست میں ایک اور تنظیم کا اضافہ ہوا۔ سال کے شروع میں تحریک جہاد پاکستان (ٹی جے پی) کے نام سے نئی دہشتگرد تنظیم کے وجود میں آنے کی خبریں سامنے آئیں۔ یہ تنظیم جلد ہی پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے لگی۔ ٹی جے پی نے بڑے حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی۔
دہشتگردی کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں
سی ٹی ڈی کے مطابق خیبرپختونخوا میں ہونے والے حملوں میں زیادہ تر افغان ملوث پائے گئے۔ ان دہشتگردوں اور خودکش حملہ آوروں کو افغانستان میں مکمل تربیت دینے کے بعد دہشتگردی کے لیے پاکستان لایا گیا۔ سی ٹی ڈی تحقیقات کے مطابق، بڑے حملوں کے ماسٹر مائنڈ افغانی ہیں جو افغانستان میں بیٹھ کر منصوبہ بندی کرتے ہیں جس کی وجہ سے تحقیقات میں پیشرفت نہیں ہورہی۔
دہشتگردوں کے خلاف کارروائیاں
سال 2023ء میں دہشتگردوں کے خلاف کارروائیوں میں بھی تیزی آئی۔ سی ٹی ڈی کے مطابق، رواں سال مجموعی طور پر ایک ہزار سے زائد مقدمات درج کیے گیے جس میں 700 سے زیادہ دہشتگردوں کو گرفتار کیا گیا۔ جبکہ سی ٹی ڈی کی جانب سے دہشتگردوں کے خلاف کارروائیوں کے دوران 250 سے زیادہ دہشتگردوں کو ہلاک کیا گیا۔