عام انتخابات میں لگ بھگ ایک ماہ رہ گیا ہو تو روایتی طور پر پورا ملک انتخابی ماحول میں ڈوب جاتا ہے، ہر طرف امیدواروں کے بینرز آویزاں ہوتے ہیں، جبکہ اچھی اور نمایاں جگہوں پر بینرز آویزاں کرنے کے لیے امیدوار ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ مارکیٹوں میں ریلیاں نکل رہی ہوتی ہیں پارکس اور گراؤنڈز کارنر میٹنگز اور جلسوں کا بہترین انتخاب بن جاتے ہیں، امیدواروں کے الیکشن آفسوں کی بھی بہار آجاتی ہے۔
الیکشن کا ماحول نظر نہیں آرہا
لیکن 8 فروری کو متوقع عام انتخابات سے قبل ابھی تک ایسا کچھ نظر نہیں آرہا، چند امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم کا اغاز کیا ہے لیکن عمومی طور پر کہیں بھی الیکشن کا ماحول نظر نہیں آرہا۔
وی نیوز نے مختلف تجزیہ کاروں سے گفتگو میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا وجہ ہے کہ عام انتخابات میں تقریباً ایک ماہ کا وقت رہ گیا ہے، لیکن ملک بھر میں روایتی نوعیت کی سیاسی گہما گہمی مفقود ہے، کوئی بھی بڑی سیاسی جماعت جلسوں کا انعقاد نہیں کر رہی، کیا اب بھی سیاسی جماعتوں کو الیکشن میں تاخیر کے خدشات لاحق ہیں؟۔
جب ریوڑیاں بٹیں گی ۔۔۔۔
وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینیئر تجزیہ کار ارشاد عارف کا کہنا تھا کہ عام انتخابات سے قبل جو سیاسی جماعت روایتی گہما گہمی کے ضمن میں جلسوں کا انعقاد کیا کرتی تھی اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے دیگر جماعتیں بھی جلسوں ریلیوں کا انعقاد کرتی تھیں وہ جماعت اس مرتبہ عملاً الیکشن کے میدان میں نہیں ہے۔
مزید پڑھیں
اس جماعت کے امیدواروں کی کافی بڑی تعداد میں کاغذات نامزدگی مسترد ہو چکے ہیں، اس پارٹی کو اس سے قبل توڑا گیا اور اس کے رہنماؤں کو دوسری سیاسی جماعتوں میں بھیجا گیا ہے لیکن دوسرے سیاسی رہنما اب بھی ایک خوف میں مبتلا ہیں۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی سمیت بعض سیاسی جماعتیں ابھی یہ سمجھ رہی ہیں کہ جب ریوڑیاں بٹیں گی تو اس میں انہیں خود ہی حصہ مل جائے گا۔
امیدوار سمجھتے ہیں کہ انہیں مشکلات کا سامنا ہے
ارشاد عارف کے مطابق یہی وجہ ہے کہ دیگر سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ الیکشن میں بہت زیادہ وسائل خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور ان کے امیدوار اپنے حلقوں سے باآسانی جیت جائیں گے۔
مسلم لیگ ن اور اور پیپلز پارٹی کے امیدوار سمجھتے ہیں کہ ہمیں عوام کے سامنے جاتے ہوئے مشکلات کا سامنا ہے وہ امیدوار چاہتے ہیں کہ وہ کم سے کم مدت میں اپنی انتخابی مہم چلائیں اور انتخابات جیت لیں۔
دہشت گردی کی لہر پھر سر اٹھا رہی ہے
روایتی جلسے جلوسوں کا بڑی تعداد میں نہ ہونے کی ایک اور وجہ ارشاد عارف کے نزدیک یہ بھی ہے کہ ملک میں خصوصاً خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی لہر ایک مرتبہ پھر سر اٹھا رہی ہے، اس لیے بھی سیاسی جماعتیں جلسوں سے گریز کر رہی ہے۔
اب بھی شکوک وشبہات موجود ہیں
روایتی سیاسی گہما گہمی نظر نہ آنے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ اب بھی شکوک وشبہات موجود ہیں کہ الیکشن 8 فروری کے بجائے تاخیر کا شکار ہوجائیں گے، اس وجہ سے بھی امیدوار یہ سمجھ رہا ہے کہ یہ نہ ہو کہ میں اپنی الیکشن ،ہم پر پیسے خرچ کر دوں اور قریب آکر الیکشن میں تاخیر ہو جائے۔
الیکشن کمیشن بھی انتخابات کے انعقاد میں خاص سنجیدہ نہیں
ارشاد عارف کے مطابق اگرچہ چیف جسٹس نےالیکشن کے انعقاد میں شکوک و شبہات پیدا نہ کرنے کی ہدایت دی ہیں لیکن اس کے باوجود جب مولانا فضل الرحمان یہ کہتے ہیں کہ کوئی حرج نہیں اگر الیکشن میں کچھ تاخیر ہو جائے، آصف زرداری بھی الیکشن کے 8 فروری کو انعقاد پر زور دیتے نظر نہیں آتے، اور خود الیکشن کمیشن کا جو رویہ ہے وہ اس تاثر کو تقویت دیتا ہے کہ الیکشن کمیشن بھی شاید انتخابات کے انعقاد میں خاص سنجیدہ نہیں۔
ایک سیاسی جماعت کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے
ایک سیاسی جماعت کو ٹارگٹ کر کے ایسی فضا بنائی جا رہی ہے کہ جس سے الیکشن میں تاخیر کا کوئی بہانا بن جائے، عام انتخابات سے قبل جو امیدوار روایتی سیاسی سرگرمیاں کرنا چاہتے ہیں ان کو اجازت نہیں دی جا رہی اور انہیں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ انہیں الیکشن مہم چلانے کا موقع نہیں دیا جا رہا، جبکہ دوسری طرف جو امیدوار ہیں وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اگر ہم عوام کے پاس جائیں گے تو یہ نہ ہو کہ ہمیں عوام کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے۔
انتخابی نشان الاٹ ہونے کے بعد گہما گہمی بڑھ جائے گی
پاکستان میں قانون سازی اور انتخابات کے عمل کی نگرانی کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کا مؤقف ہے کہ عام انتخابات سے قبل ہونے والی روایتی گہما گہمی کچھ عرصے بعد ہی شروع ہو گی، جلسے، ریلیاں اس وقت شروع ہوتی ہیں کہ جب کاغذات نامزدگی کا مرحلہ ختم ہو جاتا ہے اور امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ مل جاتے ہیں۔
13 جنوری کو انتخابی نشان الاٹ ہونے کے بعد ملک بھر میں گہما گہمی بڑھ جائے گی، اس وقت تمام امیدوار اپنے کاغذات نامزدگیاں منظور ہونے اور پارٹی ٹکٹ کا انتظار کر رہے ہیں، انتخابات سے قبل آخر 3 ہفتوں میں بہت سے جلسے ہوں گے، ریلیاں بھی ہوں گی، کارنر میٹنگز ہوں گی۔
اب زمانہ بدل رہا ہے
احمد بلال محبوب نے کہا کہ سیاسی گہما گہمی اس طرح کی نظر نہ آنے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ اب زمانہ بدل رہا ہے۔ ہر امیدوار جلسے اور ریڈیو سے زیادہ اہمیت سوشل میڈیا کو بھی دے رہے ہیں، دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بھی اب جلسے اور ریلیاں نہیں ہوتیں بلکہ صرف سوشل میڈیا پر الیکشن مہم چلائی جاتی ہے۔
ہمارے ہاں ابھی جلسے اور ریلیاں رہیں گی لیکن شاید ان انتخابات میں ان کی تعداد میں کچھ کمی نظر آئے۔ اب بھی آپ دیکھ لیں کہ امیدوار اور سیاسی جماعتیں میڈیا پر زیادہ فعال ہو گئے ہیں۔
عام انتخابات میں تاخیر نہیں ہوگی
سربراہ پلڈاٹ احمد بلال محبوب کے مطابق عام انتخابات میں تاخیر نہیں ہوگی اور انتخابات مقررہ تاریخ پر 8 فروری کو ہو جائیں گے۔ اگر کسی بھی وجہ سے انتخابات میں تاخیر ہوئی تو اس کا ملک کو بہت زیادہ معاشی نقصان ہوگا، اس وقت پاکستان بہت سے بیرونی ممالک سے ملنے والے قرضوں کا محتاج ہے۔
ملک کی بہتری کے لیے انتخابات وقت پر منعقد کیے جائیں
اگر الیکشن نہ ہوئے تو ہو سکتا ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام تاخیر کا شکار ہو جائے، اور اگر اس میں تاخیر ہوئی تو جو دوست ممالک سے آنے والی رقم میں بھی تاخیر ہو جائے گی، ایسے میں اگر الیکشن کرانے کی کوئی ایک بنیادی وجہ دیکھی جائے تو وہ یہی ہے کہ معیشت اور ملک کی بہتری کے لیے انتخابات وقت پر منعقد کیے جائیں۔