سمندری نمک کی اہمیت و افادیت

اتوار 7 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

عبدالحفیظ بٹ

ہمارے جسم اور کھانوں کی اہم ضرورت نمک ایک معدنی جز ہے۔ جسے کان کنی، جھیل اور سمندری پانی کو عمل تبخیر کے ذریعے بخارات میں تبدیل کرکے باقی رہ جانے والے ذرات سے حاصل کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں نمک کے حصول کے یہی طریقے معروف ہیں۔ اس وقت پاکستان میں دستیاب نمک انہی 3 طریقوں سے حاصل کیا جارہا ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق ساڑھے 4 لیٹر سمندری پانی سے 3 تا 5 فیصد خالص نمک حاصل کیا جاتا ہے۔ اگرچہ سمندری پانی میں متعدد نمکیات مائع شکل میں بھی پائے جاتے ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ ٹھوس حالت میں جو نمک ملتا ہے اسے ’سوڈیم کلورائیڈ‘ یا کھانے کا نمک کہتے ہیں۔

پاکستان میں نمک کی تاریخ

پاکستان معدنی نمک کے بھاری ذخائر رکھنے والے دنیا کے چند ممالک میں سے ایک ہے۔ کھیوڑا نمک کی کان نا صرف ایشیا کی قدیم ترین کان ہے بلکہ اس کا شمار دنیا کی دوسری سب سے بڑی نمک کی کان کے طور پر کیا جاتا ہے۔ اسلام آباد سے تقریباً 80 میل کے فاصلے پر کوہستان نمک میں واقع اس کان کے بارے میں تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اس کی دریافت 327 قبل از مسیح میں اس وقت ہوئی تھی جب سکندراعظم نے راجا پورس کو شکست دی تھی۔

اپنے اس سفر میں سکندراعظم کے لشکر نے پہاڑ کے دامن میں پڑاؤ ڈالا تھا۔ اسی دوران انہیں معلوم ہوا کہ طویل سفر کے باعث ان کے تھکے ہارے گھوڑے ایک غار کی چٹانوں کو چاٹنے سے تازہ دم ہوگئے۔ اور وہ خالص نمک کی چٹانیں تھیں۔

کانوں کی دریافت کے بعد چھوٹے پیمانے پر نمک نکالنے کا سلسلہ صدیوں تک جاری رہا۔

1872 میں برصغیر کے برطانوی حکمرانوں نے کھیوڑا کی کانوں سے بڑی مقدار میں نمک نکالنا شروع کیا۔ ان دنوں ان کانوں سے سالانہ تقریباً ساڑھے 3 لاکھ ٹن نمک نکالا جارہا ہے۔

کراچی میں سمندری نمک بنانے کی ابتدا

کراچی میں نمک بنانے کی ابتدا برطانوی دور میں ہوئی۔ اس وقت ماری پور کے قریب ساحل پر سمندر کے پانی سے نمک تیار کیا جاتا تھا۔ کراچی کے لوگ جو پہلے سونمیانی (حب‘ بلوچستان) کے نمک کو استعمال کرتے تھے اب کراچی کے نمک کواستعمال کرنے لگے۔

اس وقت کراچی میں ایک اونٹ نمک جس کا وزن عام طور پر 5 سے 6 من ہوتا تھا تھوک فروشوں کو صرف 10 آنے میں فروخت کیا جاتا تھا۔

1854 میں کراچی میں بڑے پیمانے پر نمک تیار کرنے کے لیے ’کراچی سالٹ کمپنی‘ قائم ہوئی۔ پھر سالٹ ڈیپارٹمنٹ میں بڑے پیمانے پر نمک تیار کرنے کے لیے ’کراچی سالٹ کمپنی‘ قائم ہوئی۔ پھر سالٹ ڈیپارٹمنٹ کے تحت’ماری پور مواچ وارکس‘ کے نام سے نمک سازی کا ایک اور بڑا ادارہ قائم ہوا۔

یہ تمام ادارے اتنا نمک تیار کرتے تھے کہ سندھ کی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد وافر مقدار میں نمک بچ جاتا تھا جسے بنگال برآمد کردیا جاتا تھا۔ اس وقت سندھ میں نمک پر کوئی محصول وصول نہیں کیا جاتا تھا۔

ماری پور مواچ ورکس سندھ کے نمک سازی کے دیگر مراکز سے بڑا تھا۔ اس میں 280 افراد کام کرتے تھے۔ یہاں تیار ہونے والا نمک نہایت اعلیٰ کوالٹی کا تھا اسی لیے اس کی بہت مانگ تھی۔

سمندری نمک تیار کرنے کا طریقہ

سب سے پہلے پمپنگ موٹروں کے ذریعے سمندری پانی کو ایک بڑے تالاب میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس بڑے تالاب کو یہاں کے مزدور ’کنڈیشن‘ کہتے ہیں اور پمپنگ موٹر کے مقام کو ’مشین‘ کہتے ہیں۔ اس تالاب میں پانی جتنا پرانا ہوگا اس میں عملِ تبخیر کے باعث نمک جلدی بننے کی صلاحیت ہوگی۔

تبخیر کو یہاں کے مزدور ’ڈگری‘ کہتے ہیں

واضح رہے کہ مٹی کی اونچی منڈیروں والے قطعہ اراضی کو تالاب کی شکل دی جاتی ہے۔

دوسرے مرحلے میں اس پانی کو ’کنڈیشن‘ سے تھوڑے فاصلے پر بنے چھوٹے چھوٹے تالابوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے ان چھوٹے تالابوں کو ’تالائو‘ اور ’تالاب‘ دونوں کہا جاتا ہے۔ عام طور پر ایک تالاب کا طول و عرض 100X60 ہوتا ہے۔ تاہم اسے اپنی ضرورت کے مطابق چھوٹا یا بڑا بھی کیا جاسکتا ہے۔

ایک 100X60 کے تالاب سے گرمیوں کے موسم میں 15 دن میں 400 سے 500 من سمندری نمک نکالا جاتا ہے۔ اسی طرح سردیوں کے موسم میں جب کہ سورج دیر سے نکلتا ہے دن چھوٹے اور راتیں بڑی ہوتی ہیں۔ ایک 100X60 کے تالاب سے ایک ماہ میں 50 تا 100 من نمک نکالا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ بارش ہونے کی صورت میں مزدور کی تمام محنت ضائع ہوجاتی ہے، اسی طرح مطلع اگر ابر آلود ہو تو بھی نمک کی تیاری میں بڑی رکاوٹ کا باعث ہے، جس قدر گرمی کی شدت زیادہ ہوگی اتنی جلدی نمک تیار ہوگا۔

تالاب میں پڑے ہوئے سمندر کا پانی پہلے ہلکی گلابی رنگت اختیار کرتا ہے پھر بتدریج اس میں سفیدی آجاتی ہے۔ تالاب سے نمک نکلتے وقت اس میں کچھ پانی چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ اس میں ’ڈگری‘ تبخیر باقی رہے۔ بعدازاں جب اس میں ’کن ڈیشن کا پانی‘ چھوڑا جاتا ہے تو ’ڈگری‘ والے پانی کے ساتھ مل کر عملِ انگیز کا کام کرتا ہے۔ اس طرح نمک جلد تیار کرنے میں مدد ملتی ہے۔

نمک کو تالاب سے نکالنے کے طریقے

پھاؤڑی کی مدد سے پہلے نمک جمع کیا جاتا ہے پھر کھجور کی چھال سے بنی ٹوکری جسے یہاں کے مزدور چھلی اور ٹوکری دونوں کہتے ہیں‘ پھاؤڑے کی مدد سے چھلی کو نمک سے بھر کر تالاب سے باہر کھلے مقام پر نمک ڈال دیا جاتا ہے۔ جہاں نمک کو سورج کی شعاعوں کے ذریعے خشک کر لیا جاتا ہے۔

(i) یہ طریقہ مزدور کے لیے زیادہ پرمشقت ہے

(ii) پہلے ایک بڑے سائز کے پھاؤڑے جسے ’پھاؤڑی‘ کہا جاتا ہے‘ نمک کو تالاب میں ایک مقام پر جمع کیا جاتا ہے پھر ٹرالی کو نمک کے نزدیک لا کر پھاؤڑے کی مدد سے بھر لیا جاتا ہے۔ بعدازاں ٹرالی کو تالاب سے باہر نکال کر کھلے مقام پر نمک ڈال دیا جاتا ہے۔

اس وقت کراچی میں باکس بے‘ کیماڑی ٹاؤن‘ یو سی 6‘ ماڑی پور ویلیج میں 3 سمندری نمک تیار کرنے والے ادارے ہیں جبکہ کورنگی چشمہ گوٹھ میں 2 اور دھابیجی میں 5 تا 6 سمندر نمک تیار کرنے والے ادارے ہیں۔

(1) حبیب اوشین انڈسٹریز

یہ خورشید سالٹ ورکس کے نام سے مشہور ہے اور یہی اس مقام پر سب سے بڑا سمندری نمک کا ادارہ ہے۔ اس کے مالک حبیب روشن تھے جن کے انتقال کے بعد ان کے دونوں صاحبزادوں میں جائیداد کا تنازع ہوا۔ اس وقت مقدمہ ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے۔

حبیب روشن کے صاحبزادوں کے نام یہ ہیں (1) انیس الرحمٰن (2) مجیب الرحمٰن۔

(2) نسرن جی (یہ غالباً نوشیروان جی ہوگا کیوں کہ اس ادارے کے کارخانے کا مالک بلوچ ہے اس لیے مزدور بھی سرن جی کہتے ہیں) اس کا پرانا نام سلور سالٹ ہے۔

(3) لکشمی سالٹ

اس کا اصل نام نیشنل سالٹ ورکس ہے۔ لیکن یہاں یہ لکشمی سالٹ کے نام سے معروف ہے۔ (یہ تینوں ادارے ہاکس بے روڈ پر واقع ہیں)۔ واضح رہے کہ سمندری نمک سب سے اچھا معیاری اور صاف شفاف نمک دھابیجی میں تیار ہورہا ہے۔

مزدوروں کی اقسام اور ان کی اجرت

(1) نمک نکالنے والے مزدور کی روزانہ کی اجرت اس وقت 160 روپے سے لے کر 200 روپے تک ہے۔ جب کہ گرمیوں میں کام زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ اجرت 500 روپے تا 700 روپے تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ یہ مزدور اپنی اجرت کے باعث سمندری نمک کے اوّل درجے کے مزدور سمجھے جاتے ہیں۔

(2) سمندری نمک کو پیک کرنے والے مزدور

سمندری نمک کو پلاسٹک کے بورے میں ڈالنے والے یہ مزدور فی بورا ایک روپیہ 14 پیسہ (1.14) لیتے ہیں جس میں نمک کو بورے میں بھر کر اسے سوئی دھاگے کی مدد سے اس کا منہ بند کردیا جاتا ہے۔ خریدار کی ضرورت کے مطابق بورے کا وزن کیا جاتا ہے جو کہ 20 کلو گرام، 50 کلو گرام اور 70 کلو گرام فی بورا بھی ہوسکتا ہے۔ سمندری نمک کے وزن اور پیکنگ کا کام ’پیکنگ مزدور‘ کرتا ہے، یہ کام عموماً ٹھیکے پر کروایا جاتا ہے۔

(3) بورے اٹھانے والا مزدور (لوڈر)

یہ کام بھی ٹھیکے پر کیا جاتا ہے اس میں اگر ایک مزدا (درمیانے درجے کا ٹرک) 10 ٹن یعنی 250 بوریاں لے کر جاتا ہے تو کُل 300 روپے مزدوروں کو ملتے ہیں۔ اب چاہے مزدا کے ساتھ 2 یا 4 مزدور ہوں‘ یہ ان کا نصیب ہے۔

اسی طرح اگر 10 وہیلر بڑا ٹرک ہے یہ 30 ٹن سمندری نمک لے جاتا ہے جس پر 600 تا 700 بوریاں آتی ہیں، اس کی کُل مزدوری 1200 روپے ہوتی ہے۔ ایک بڑے ٹرک کے ساتھ عموماً 6 تا 7 مزدور ہوتے ہیں۔

سمندری نمک کی خریدوفروخت

اس وقت سمندری نمک براہِ راست اس کی تیاری کے مقام سے اٹھانے پر ایک روپیہ فی کلو فروخت ہورہا ہے تاہم اس میں کمی بیشی کا زیادہ تر انحصار موسم اور نمک کی کوالٹی پر ہے۔ اگر نمک میں گندگی زیادہ ہے تو یہ 80 پیسہ فی کلو بکے گا اور اسے کھانے کے استعمال میں نہیں لایا جائے گا۔

اسی طرح نمک اگر صاف ہے لیکن موسم گرمی کا ہے تو بھی اس کی قیمت میں کمی آجاتی ہے کیونکہ گرمی کے موسم میں نمک کی پیداوار میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر موسم سردی کا ہے اور نمک صاف ہے تو اس کی قیمت بڑھ جائے گی کیوں کہ سردی کے موسم میں نمک کی پیداوار کم ہوجاتی ہے۔ مجموعی طور پر یہاں ایک محتاط اندازے کے مطابق 50 ٹن نمک روزانہ فروخت ہورہا ہے جب کہ گرمیوں میں اس کی فروخت میں 3 گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔

سمندری نمک کی برآمد

اس وقت یہاں سے تیار کردہ سمندری نمک اندرونِ شہر کراچی کے علاوہ بیرون ملک برآمد بھی کیا جارہا ہے بالخصوص بنگلہ دیش‘ کوریا‘ میانمار وغیرہ میں اس کی مانگ بہت زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ چاول کے بیوپاری جو چاول برآمد کر رہے ہیں وہ بھی پاکستانی چاول کے ساتھ ان ممالک کو یہ نمک بھی فروخت کررہے ہیں۔ کسی زمانے میں ہاکس بے کراچی سے نمک جاپان برآمد کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ نمک کے بیوپاریوں میں آڑھتی (مڈل مین) بھی شامل ہیں۔ آڑھتی یہاں سے نمک خریدنے کے بعد اسے ایک روپیہ 50 پیسے سے لے کر 2 روپے میں فروخت کر دیتے ہیں۔ یہاں سے نمک اندرون شہر کے لیے مچھلی‘ چمڑا‘ کپڑا‘ آئسکریم بنانے والے و دیگر ادارے خریدتے ہیں۔

سمندری نمک ساز مزدوروں کے مسائل

یہاں کام کرنے والے مزدوروں کا کہنا ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں ان کی اجرات کم اور مشقت زیادہ ہے۔ یہاں کے مزدوروں کا تعلق زیادہ تر اندرون سندھ سے ہے بالخصوص نوشہرو فیروز سے۔ تاہم بلوچ‘ پٹھان اور پنجابی مزدور بھی یہاں کام کرتے ہیں۔

ہر ادارے نے مزدوروں کو رہائش کی سہولت دے رکھی ہے۔ یہاں انہیں بجلی‘ پانی مفت فراہم کیا جاتا ہے، تاہم گیس نہ ہونے کے باعث انہیں کھانا پکانے میں دشواری کا سامنا ہے۔ یہاں ایک کمرے میں 3 تا 4 مزدور اکٹھے رہتے ہیں ان میں پڑھے لکھے مزدور انتہائی کم ہیں۔

یہاں مزدوروں کو جو سہولیات کام کے دوران ملنی چاہییں وہ انہیں دستیاب نہیں ہیں۔ مثلاً ربڑ کے جوتے اور داستانے‘ باقاعدہ یونیفارم وغیرہ۔ مزدور کیوں کہ 8 گھنٹے پانی میں کام کرتے ہیں اس لیے ان کے ہاتھوں اور پیروں کے ناخن خراب ہو جاتے ہیں۔

نمک پر جب سورج کی شعاعیں پڑتی ہیں اس سے پیدا ہونے والی چمک کے باعث ان کی بینائی جلد خراب ہوجاتی ہے۔ خصوصاً دور کی نظر بہت خراب ہوجاتی ہے۔ بعض کو رات میں دکھائی نہیں دیتا ہے کیونکہ مستقل کھڑے رہ کر کام کرنا پڑتا ہے اس لیے گھٹنوں اور کمر کی تکالیف یہاں زیادہ ہیں۔

ربڑ کے جوتے نہ ہونے کے باعث ان کے پیر مستقل گیلے رہتے ہیں اس لیے پیروں کے ناخن اور ایڑھیوں کے نزدیک پیپ والے بڑے دانے نکل آتے ہیں۔ بیمار ہونے کی صورت میں انہیں یہاں کسی قسم کی طبی سہولیات میسر نہیں۔ ڈاکٹر تو دور کی بات ہے ڈسپرین کی گولی تک نہیں ملتی۔

ایک مزدور کریم بخش نے اپنا پاؤں دکھایا اور بتایا کہ اسے کس قدر تکلیف ہے لیکن یہاں علاج معالجے کی سہولت میسر نہیں۔ اسے یہاں کام کرتے ہوئے 40 سال ہوگئے ہیں۔ ایک اور مزدور واحد بخش نے اپنے ہاتھ پاؤں کی انگلیاں اور ناخن دکھائے اور بتایا کہ انہی ہاتھوں سے وہ مزدوری کرتا ہے اور انہیں سے وہ کھانا کھاتا اور دیگر کام کرتا ہے۔ اس نے بتایا کہ اسے 40 سال ہوگئے ہیں یہاں کام کرتے ہوئے لیکن علاج کی اسے کوئی سہولت میسر نہیں ہے۔

اسکن ڈاکٹر اعجاز (ڈرماٹولوجسٹ)

ہم نے ماہر جلد ڈاکٹر اعجاز سے مزدوروں کی جلدی علامت بیان کی تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ مستقل ہاتھ اور پاؤں کے پانی میں رہنے سے پہلے فنگس ہوتی ہے جسے پھپھون کہتے ہیں۔ سمندری پانی میں نمکیات کے علاوہ دیگر عناصر بھی ہوتے ہیں اس لیے یہ بیکٹیریل انفکیشن میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس بیماری کو ’اونیکو مائی کوسیس‘ کہتے ہیں۔ اس بیماری کی ادویہ مہنگی اور علاج طویل ہوتا ہے ایک عام آدمی جو کہ مزدوری کرتا ہو‘ اس کے لیے طویل عرصے تک اپنا علاج کرانا مشکل ہے۔

اس کے علاوہ کیوں کہ مریض انہی ہاتھوں سے کھانا بھی کھاتا ہے اور دیگر امور بھی انجام دیتا ہے اس لیے ہاتھوں کے ذریعے منہ سے ہوتے ہوئے پیٹ میں انفکیشن (عفونت) ہوجاتی ہے جس میں آنتوں کا بخار بھی شامل ہے۔

حکومتی اقدامات

(1) حکومت کو چاہیے کہ وہ اس پیشے سے وابستہ افراد کے لیے کوئی باقاعدہ ڈاکٹر مقرر کرے۔

(2) مزدوروں میں شعور اور آگہی کے حوالے سے پروگرام ترتیب دیے جائیں۔

(3) مزدوروں کو احتیاطی تدابیر اور بیماریوں سے بچاؤ کے طریقے سکھائے جائیں۔

سمندری نمک کی صنعت کو درپیش مسائل

سمندری نمک کی صنعت مسائل کا شکار ہے۔ اگر حکومت اس جانب توجہ دے تو کثیر زرمبادلہ اس صنعت کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں لکشمی سالٹ کے مینیجر محمد اقبال اعوان سے جب بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ہمارا یہ ادارہ جس زمین پر واقع ہے وہ لیز پر ہے۔ یہ 190 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ زمین سینٹرل ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کی ہے اور ہم حکومت کو باقاعدہ ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہاں انفراسٹریکچر کا نظام نہیں ہے۔ بجلی اگر چلی جائے تو کے ای ایس سی والے اوّل تو آتے ہی نہیں ہیں۔ آتے ہیں تو تاخیر سے اور جب کام کرتے ہیں تو رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔

پانی کے لیے یہاں ٹینکر ڈلوانا پڑتا ہے۔ گیس موجود نہیں ہے۔ اگر حکومت سرپرستی کرے تو پیداوار بھی بڑھے گی اور حکومت کو اس انڈسٹری سے سالانہ کثیر زرِ مبادلہ بھی حاصل ہوگا۔

سمندری نمک کی اقسام

اس وقت بازار میں فروخت ہونے والا نمک 4 اقسام میں موجود ہے۔

(1) لاہوری نمک

یہ نمک باریک ہوتا ہے۔

(2) پاؤڈر فارم (PHOD SALT)

یہ بالکل باریک ہوتا ہے۔ ٹالکم پاؤڈر کی طرح اسے زیادہ تر فارماسوٹیکل کمپنیاں استعمال کرتی ہیں۔

(3) سوجی نمک

یہ دانے دار ہوتا ہے، اس کی شکل کیوں کہ سوجی کی طرح ہوتی ہے اس لیے یہ سوجی نمک کہلاتا ہے۔

(4) کرسٹل لائن:

یہ موٹا دانے دار ہوتا ہے اس لیے اسے کرسٹل لائن کہا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ نمک کی پیسائی کے بعد اوپر تلے چھلنی رکھ کر نمک کی یہ اقسام تیار کرلی جاتی ہیں۔

سمندری نمک پروسیسنگ کے طریقے

(1) چکی والا نمک (لاہوری نمک)

یہ نمک چکی یا کارخانے والا نمک کے ادارے یا آڑھتی سے خریدتا ہے اور اپنے نمک کے کارخانے میں اس کی بوریوں کو کھول کر تمام نمک کو پہلے دھوپ میں خشک کرایا جاتا ہے اگر نمک پہلے ہی خشک ملا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ اسے دھوپ میں کچھ وقت خشک کرنے کے بعد چکی میں اس کی پیسائی کردی جاتی ہے۔ بعدازاں اسے پلاسٹک کی تھیلیوں میں بند کرکے فروخت کے لیے گدھا گاڑی اور سوزوکی پک اپ میں رکھ کر بازار اور گلی محلے کی دکانوں پر فروخت کر دیا جاتا ہے۔ اس وقت کراچی اور اس کے گلی محلوں میں یہی نمک سب سے زیادہ فروخت ہورہا ہے۔ مارکیٹ میں اس نمک کی دستیابی و فروخت کا تناسب ایک محتاط اندازے کے مطابق 80 فیصد سے زیادہ ہے۔ یہ کیوں کہ ریفائن نہیں کیا جاتا اور اس کی قیمت بھی دیگر نمک کے مقابلے میں کم ہے ایک کلو کی تھیلی 10 روپے میں دستیاب ہے جب کہ دیگر ریفائنڈ نمک کی ایک تھیلی جس میں 800 گرام نمک ہوتا ہے‘ 15 روپے میں دستیاب ہے۔

یہ نمک گھریلو استعمال کے علاوہ بیکری‘ کھانے پکانے والے (کیٹرنگ پکوان) مقامی گلی محلوں کے ہوٹلوں‘ ٹھیلوں پر بکنے والی اشیا پکوڑے‘ سموسے والے‘ مٹھائیاں بنانے والے اس کے علاوہ بچوں کے لیے کنفکشنری آئٹم میں بھی استعمال ہو رہا ہے۔ زیادہ تر سیلزمین جو اپنی موٹر سائیکلوں پر اسنیک آئٹم کے تھیلے رکھے یا اپنی سائیکل کے پچھلے حصے میں لٹکائے بڑے بڑے تھیلوں میں اسنیک آئٹم اور کنفکشنری آئٹم فروخت کررہے ہوتے ہیں وہ یہ نمک استعمال کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہی نمک پیٹ کی بیماریوں‘ گردے کی پتھری اور دیگر بیماریوں کا باعث ہے۔

کرسٹل نمک کی تیاری

ادارے سے یہ نمک خریدنے کے بعد پہلے چکی میں پیسا جاتا ہے پھر اسے بھٹی/ برنر میں ڈال دیا جاتا ہے جہاں اسے 100 تا 200 درجہ حرارت دیا جاتا ہے۔ بعدازاں اسے برنر/بھٹی سے نکال کر پلاسٹک کی تھیلیوں میں بند کر کے فروخت کے لیے بازار میں پہنچا دیا جاتا ہے، اس عمل سے گزرنے پر سمندری نمک میں ہلکی سی پیلاہٹ آجاتی ہے۔

(3) ریفائنڈ نمک

اس نمک کو ادارے سے خریدنے کے بعد پہلے ایک کنویئر پر نکال کر ڈال دیا جاتا ہے جہاں اس پر شاور کی مدد سے پانی ڈال کر دھو لیا جاتا ہے۔ اس طریقے سے نمک میں موجود مٹی نیچے بیٹھ جاتی ہے جبکہ اس میں موجود دھول‘ گرد وغیرہ صاف ہوجاتی ہے۔ اگرچہ کچھ نمک بھی گھل جاتا ہے۔ پھر اسے ایک سینٹری فیوج میں ڈال دیا جاتا ہے جہاں پر اس نمک

میں شامل پانی کو خشک کیا جاتا ہے۔ سینٹری فیوج سے نکلنے کے بعد اس سمندری نمک کی پیسائی کردی جاتی ہے۔ بعدازاں اسے پلاسٹک کے تھیلوں میں پیک کرکے ’ریفائنڈ نمک‘ کے نام سے فروخت کردیا جاتا ہے۔

(4) PVD طریقہ (Pure Vacume Dry)

اس طریقہ میں پہلے سمندری نمک کا ایک محلول (Concentrated Solution) تیار کیا جاتا ہے اس محلول کو مختلف طریقے سے گزارنے کے بعد اسے بذریعہ مشین خشک کیا جاتا ہے اس طریقہ سے نمک میں موجود تمام ناخالص اجزا باہر آجاتے ہیں اور پیور سالٹ حاصل ہوجاتا ہے۔ یہ نمک 99 فیصد تک خالص ہوتا ہے۔ درحقیقت یہی نمک ہے جو بالکل ٹھیک طریقہ سے صاف کیا جاتا ہے اور کھانے کے قابل ہوتا ہے۔ اس وقت سینٹری فیوج کو نمک سازی کے یہ معروف ادارے استعمال کر رہے ہیں۔

(1) حب سالٹ

(2) سیفی سالٹ

(3) الامین سالٹ

غذائی استعمال کے لیے نمک کی خاصیت

غذائی استعمال کے لیے خوردنی نمک میں کیا خصوصیت ہونی چاہییں اور کن اجزا سے اسے پاک ہونا چاہیے اس کے لیے کوڈیکس (Codex) نے‘ جو کہ ایک بین الاقوامی فوڈ آرگنائزیشن کا ادارہ ہے‘ یہ ادارہ بین الاقوامی سطح پر فوڈ اور اس میں شامل اجزا کے معیار مقرر کرتا ہے۔ اس ادارے نے سمندری نمک کو بطور کھانے کے لیے جو معیار مقرر کیا ہے وہ یہ ہے:

کھانے والا نمک تمام آلودگی سے پاک ہونا چاہیے۔

سمندری نمک میں شامل حل پذیر آلودگی کی انتہائی سطح

(1) ARSENIC

0.5 mg/kg

(ایک کلو گرام نمک میں 0.5 تک آرسینک کے اجزا ہوں۔ )

(2) Copper

2 mg/kg

(3) LEAD

2 mg/kg

(4) CADMIUM

0.5 mg/kg

(5) MERCURY

0.1 mg/kg

ایک کلو گرام سمندری نمک میں اگر یہ اجزا ان ملی گرام سے زیادہ ہوں تو وہ سمندری نمک زہریلا ہوجائے گا اور کھانے کے قابل نہیں رہے گا۔ واضح رہے کہ یہ حل پذیر آلودگی کی انتہائی سطح ہے۔

غیر حل پذیر آلودگی

واضح رہے کہ کھانے والا نمک پانی میں 100 فیصد حل پذیر ہوتا ہے اور پانی میں حل کرنے پر نہ تو یہ پانی کو گدلا کرتا ہے اور نہ ہی برتن کی تہہ پر جمع ہوتا ہے۔

(1) CLAY

(2) CALCIUM CONTENTS(Gypsum)

(3) POTASSIUM CONTENTS

(4) SULPHATE

یہ غیر حل پذیر آلودگی ریفائنڈ کے طریقے استعمال کرنے پر نمک سے ختم ہوجاتی ہے۔ خصوصیت کے ساتھ PVD طریقہ میں جس میں جھاگ کی شکل میں ان اجزا کی تہہ اوپر آجاتی ہے اور مٹی نیچے بیٹھ جاتی ہے اور خالص نمک حاصل کرلیا جاتا ہے۔

کراچی کی شہری حکومت کے اقدامات

(1) آیوڈین ملے نمک کی تیاری کے لیے قانون سازی

شہر کراچی کو پاکستان میں یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ اس نے ملک میں پہلی مرتبہ آیوڈین ملے نمک کی تیاری کے لیے قانون سازی کی ہے۔ یہ قانون 9 اگست 2007 کو سٹی کونسل آف سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی نے پاس کیا۔

اس کے لیے ناظم شہری مصطفیٰ کمال اور ان کی ٹیم مبارکباد کے مستحق ہیں۔ کراچی شہر پاکستان میں اس ضمن میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ شہری حکومت کی ہیلتھ ٹیم اس ضمن میں کچھ اس طرح کام کررہی ہے۔

(1) ای ڈی او ہیلتھ (ڈاکٹر اے دی سجنانی)

(2) سٹی کونسل کی ہیلتھ کمیٹی

ممبران کے نام یہ ہیں (1) ڈاکٹر نگہت شکیل‘ (2) مرزا ساجد بیگ (3) محمد سمیع (4) مسز شبانہ

کوالٹی فوڈز کے افسر عبدالجبار شیخ

فوڈ انسپکٹرز کے کام کی مانیٹرنگ کے نگراں ڈاکٹر ظفر اعجاز ہیں۔ شہری حکومت کو اپنے آیوڈین پروگرام پر عملدرآمد کے لیے ان اداروں کی معاونت حاصل ہے۔

(1) نوٹریشن ونگ وزارتِ صحت‘ حکومت پاکستان

(2) یونیسیف

(3) ٹیکنیکل سپورٹ مائیکرو نیوٹرینٹ انیٹیٹیو (Micro Nutrient Initative) واضح رہے کہ مائیکرو نیوٹرینٹ انیٹیٹیو ایک این جی او ہے جس کے روحِ رواں شکیل احمد آیوڈین پروگرام کے حوالے سے بہت متحرک و فعال ہیں۔

(2) تعلیمی اداروں میں شعور وآگہی پیدا کرنے کے لیے پروگرام کا انعقاد

شہری حکومت کراچی میں آیوڈین پروگرام کے حوالے سے کچھ اس طرح کام کررہی ہے۔

کراچی کے 18 ٹاؤنز میں سے ہر ٹاؤن کے ایک سیکنڈری گرلز اسکول کو منتخب کیا گیا ہے۔ لیاری اور گورنگی سے 2،2 جبکہ بقیہ ٹاؤنز سے ایک ایک سیکنڈری گرلز اسکول ہیں۔ ان پروگرامز میں شرکت کرنے والی طالبات میں آخر میں سوالات و جوابات کا ایک امتحان کرایا جاتا ہے تاکہ طالبات کی دلچسپی ظاہر ہوسکے۔ بعدازاں ان میں پاس ہونے والی طالبات کو ایک خوب صورت اسکول بیگ اور 200 روپے انعام میں دیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی یونیورسٹی اور دھوراجی ہوم اکنامکس میں بھی شعورو آگہی پروگرام ہوچکے ہیں۔ یہ اس وقت پائیلٹ پراجیکٹ ہے، آئندہ اس پروگرام میں توسیع ہوجائے گی۔

(3) ذرائع ابلاغ کا استعمال

21 اکتوبر کو آیوڈین کا دن دنیا بھر میں منایا جاتاہے اس ضمن میں شہری حکومت بھی بھرپور کردار ادا کرتی ہے۔ اخبار‘ ریڈیو اور ٹی وی پر آیوڈین پروگرام کی اہمیت اجاگر کی جاتی ہیں۔

(4) پروگرام کی مانیٹرنگ کے لیے شہر کی 4 حصوں میں تقسیم

شہری حکومت نے اپنے آیوڈین پروگرام اور نمک سازی کے حوالے سے شہر کراچی کو 4 حصوں میں تقسیم کیا ہے جہاں اس کے فوڈ انسپکٹرز نمک سازی اور اس کی فروخت پر نگرانی رکھتے ہیں۔ کراچی شرقی بشمول ملیر‘ غربی‘ وسطی اور شمالی۔

(5)آئی ڈی ڈی(Iodine Deficition Disorder):

(آیوڈین کی کمی سے پیدا ہونے والے نقائص و خرابیاں)

یو ایس آئی پروگرام (Universal Salt Iodization Programme)

اس پروگرام کے لیے شہری حکومت نے افسران کی تقرری کی ہے جوکہ نمک ساز اداروں اور نمک فروخت کنندگان کے نمک کی مانیٹرنگ کرتے ہیں کہ اس میں پوٹاشیم آیوڈیٹ شامل کیا جارہا ہے یا نہیں۔

(6)ارزاں نرخ پر آیوڈین مرکب (پوٹاشیم آیوڈیٹ) کی نمک تیار کنندگان کو فراہمی:

پوٹاشیم آیوڈیٹ) (Potassium Iodate K103

یہ آیوڈیٹ جمہوریہ چلی سے منگوایا جارہا ہے جس کے آدھا کلو کے ڈبے کی مالیت 350 روپے ہے شہری حکومت یہ ڈبہ نمک فروخت کنندگان کو 200 روپے میں فروخت کرتی ہے۔ آدھا کلو ڈبہ سے 10 ہزار کلو گرام آیوڈین نمک تیار ہوتا ہے۔ اس طرح ایک کلو آیوڈین نمک کی تیاری پر فروخت کنندگان کو تقریباً 2 پیسہ فی کلو پڑتا ہے۔

PPM فارمولا (Perts per Million)

سمندری نمک کے 10 لاکھ ذرات پر 500 ذرات آیوڈین کے ہونے چاہییں۔ پروڈکشن کے وقت نمک میں 50PPM ہونا چاہیے۔ بازار میں فروخت ہونے پر یہ 30PPM رہ جاتا ہے اور گھر میں استعمال کرتے ہوئے یہ صرف 20 تا 25 تک PPM رہ جاتا ہے۔

شہری حکومت کے فوڈ انسپکٹر آیوڈین ٹیسٹ کٹ کے ذریعے اس کی مقدار چیک کرتے ہیں۔ نمک کی تیاری میں جس مقدار میں آیوڈین شامل ہوگا ٹیسٹ کے وقت نمک کا رنگ گہرا نیلا ہوجائے گا اور جس قدر کم آیوڈین ہوگی اس کا رنگ کم نیلا ہوجائے گا۔

واضح رہے کہ اس وقت شہری حکومت کی جانب سے سمندری نمک کی تیاری کے بعد فروخت ہونے والے تمام اقسام کے نمک لاہوری‘ چکی والا‘ کرسٹل‘ ریفائنڈ‘ آیوڈین۔ ان سب میں آیوڈین کی شمولیت کو یقینی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اب صارف چاہے آیوڈین لے یا ریفائنڈ‘ چکی والا‘ لاہور نمک لے یا کرسٹل یہ سب کا سب ریفائنڈ ہے۔

(7) شہری حکومت کی کوششیں

شہری حکومت نمک تیار کنندگان کو آیوڈین کی جانب راغب کرنے کے لیے مفت تربیت فراہم کررہی ہے۔ انہیں آیوڈین کے استعمال کے لیے مفت سامان جس میں پلاسٹک کی بالٹی‘ ایک بڑا پلاسٹک کا چمچہ‘ پلاسٹک کا پائپ مفت فراہم کررہی ہے۔ اس وقت کراچی میں 40 تا 50 نمک کے کارخانے قائم ہیں جہاں ہرطرح کا نمک تیار کیا جارہا ہے۔

سمندری نمک کی کھپت

(1) ادویات سازی کے لیے

(2) انڈسٹری کے لیے: سمندری نمک 20 تا 25 فیصد انڈسٹری کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔ یہ ان پیورفائیڈ (ناخالص) ہوتا ہے۔

(3) کھانے کے لیے فوڈ گریٹ سالٹ: اس کی کھپت اور مانگ زیادہ ہے یہ تقریباً 75 تا 80 فیصد تیار کیا جارہا ہے۔

معدنی نمک

راک سالٹ / معندی نمک اس کی کھپت 5 فیصد ہے۔

نمک سازی اور چکی والے کیا کر رہے ہیں؟

ایک اہم بات جو اس فیچر کی تیاری کے دوران علم میں آئی وہ یہ کہ ریفائنڈ نمک سازی کے بعض کارخانے ریفائنڈ نمک کے لیے معدنی نمک اور سمندری نمک کو مکس کرکے تیار کر دیتے ہیں اس طرح ایک نیا پیکٹ مارکیٹ میں پہنچ کر 15 روپے میں فروخت ہوتا ہے جب کہ اس کی تیاری میں لاگت نصف یا اس سے کم آتی ہے اس طرح یہ ریفائنڈ نمک ساز کارخانے عوام کی جان و مال سے کھیل رہے ہیں کیوں کہ معدنی نمک میں یہ خرابی ہے کہ یہ صاف نہیں ہوسکتا۔ اگر اسے دھویا جائے تو پانی اس نمک کو اوپر سے دھو دے گا لیکن اس میں موجود مٹی نہیں نکل سکے گی کیوں کہ مٹی نمک کے اندر ہوتی ہے اوپر نہیں یہی وجہ ہے کہ اگر آپ معدنی نمک خریدیں تو اس کے بڑے ٹکڑے میں یہ مٹی صاف دکھائی دے سکے گی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ شہری حکومت اپنے مانیٹرنگ پروگرام کو مزید مؤثر کرے، اپنی مانیٹرنگ ٹیم میں اضافہ کرے اور ان کی تربیت کرے۔

غیر خالص (ان پیورئیڈ نمک) کے استعمال سے پیدا ہونے والی بیماریاں

(1) آنتوں کا کینسر (2) پیٹ کی بیماریاں (3) گردے کی بیماریاں (پتھری وغیرہ) یہ بیماریاں اسی وجہ سے پھیل رہی ہیں۔

طبی ماہرین کی رائے

ایک شخص کو روزانہ 10 تا 12 گرام نمک کی ضرورت ہوتی ہے جوکہ اسے پھل‘ سبزیوں اور دیگر ذرائع سے حاصل ہوجاتی ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ روز مرہ کی خوراک میں نمک کی مقدار کم کرکے ہائی بلڈپریشر‘ عارضہ قلب اور دل کی شریانوں میں تنگی کے مرض پر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔ دن میں کسی ایک خوراک میں نمک کا استعمال ترک کردیا جائے تو ان امراض کی شرح میں 65 فیصد کمی واقع ہوسکتی ہے۔

سالٹ اینڈ ہیلتھ گروپ کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ڈبہ بند غذاؤں اور ہوٹلوں کے کھانوں میں خوراک کو لذیذ بنانے کے لیے نمک کی مقدار ہمیشہ زیادہ رکھی جاتی ہے جو لوگ ان ڈبہ بند غذاؤں پر زندہ ہیں ان کی 90 فیصد تعداد ہائی بلڈ پریشر‘ عارضہ قلب اور دل کی شریانوں کے مسائل سے دوچار ہوچکی ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ صحت مند زندگی گزارنے کے لیے لازمی ہے کہ نمک کا استعمال کم سے کم کیا جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp