46 برس قبل کوچ کر جانے والے ابنِ انشا مداحوں کے دلوں میں زندہ و جاوید

بدھ 10 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

غزل گو شاعر،کالم نگار ابن انشا محض 50 سال کی عمر میں 11 جنوری 1978 کو لندن میں انتقال کر گئے تھے اور کراچی میں آسودہ خاک میں مگر مداحوں کے دلوں میں آج بھی زندہ و جاوید ہیں۔

ابن انشا کی برسی ہر سال 11 جنوری کو منائی جاتی ہے اور ان کے چاہنے والے انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

ان انشا کا مزاح فطری مزاح تھا۔ وہ اپنے کالمز میں ایک الگ ہی انداز سے دنیا کو ملواتے اور اس طرح دکھاتے کہ پڑھنے والا تا دیر مسکراتا ہی رہ جاتا ہے۔ معاشرتی ناہمواریوں پر جو طنز ابن انشا کا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ ان کے جملے، فقرے اور ان کو برتنے کا سلیقہ، سفری کالموں میں ان کی فطری حسِ مزاح، شوخی، شگفتگی، رمز و کنایہ، ظرافت، تحریف کے ساتھ ساتھ مزاحیہ صورت حال، برمحل اشعار، اکثر فارسی اشعار، ہندی الفاظ، محاورے، تشبیہیں اور ضرب الامثال بھی ملتے ہیں۔

انہیں زبان پر مکمل عبور تھا اور سب سے اہم بات ان کا بروقت موقع محل کے لحاظ سے الفاظ کا درست استعمال تھا، وہ لفظوں کے موتی پروتے تھے، الفاظ ان کی تحریروں میں نگینے کی طرح جڑے ہوتے۔ انشا جی ایک بھرپور لکھاری تھے۔ اپنے قاری سے کہیں تو قہقہے لگوادیتے تھے اور کہیں وہ ان کے کالم پڑھ کر رونے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ یہ ان کی تحریر کا کمال تھا۔ ان کے اندر سچائی اور کھرا پن تھا۔

’دنیا گول ہے‘، ’اردو کی آخری کتاب‘، ’خمار گندم‘، ’آپ سے کیا پردہ‘، ’نگری نگری پھرامسافر‘، ’آوارہ گردی کی ڈائری سے‘، ’چلتے ہو تو چین کو چلیے‘، ’ابن بطوطہ کے تعاقب میں‘ جیسی اعلیٰ ادبی تصنیفات کے لکھاری شیر محمد خان المعروف ابن انشا کی پیدائش ضلع جالندھر (مشرقی پنجاب) کے ایک دیہاتی کاشتکار گھرانے میں ہوئی۔

ابن انشا اپنے والدین کی پہلی اولاد تھے۔ 7 بہن بھائی جن میں 4 بہنیں اور ان سمیت 3 بھائی تھے۔ ان کی غلط تاریخ پیدائش کی وجہ سے انپیں افسوس بھی رہتا تھا کہ جب 1942 میں انہوں نے میٹرک پاس کیا تو وہ تقریباً 18 سال کے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ مجھے 2 چیزوں نے نقصان پہنچایا۔ ’ایک میٹرک کے امتحان میں لکھی ہوئی میری زیادہ عمر اور دوسرے اوائل عمر کی میری شادی نے۔‘ ان کا پہلا شعری مجموعہ چاند نگر 1955 میں شائع ہوا۔ انہوں نے ریڈیو پاکستان اور وزارت ثقافت میں بھی کام کیا۔

ابن انشا نے اقوام متحدہ کے مشیر کی حیثیت سے متعدد ممالک کا دورہ کیا۔ انہوں نے متعدد سفر نامے بھی تحریر کیے۔ خلیل الرحمٰن اعظمی اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ ابن انشا ،ایڈ گرایلن پو کو اپنا ’گرو دیو‘ کہتے تھے ۔ میرا جی کے بعد ابن انشا پو کے دوسرے عاشق تھے اور ان کے انداز کو انہوں نے اپنایا۔

ابن انشا نے نثر کی ابتدا کتابوں پہ تبصرے، ادبی ڈائری، ادبی رپورٹس وغیرہ لکھنے سے کی اور کالم نگاری بعد میں اختیار کی۔ ’امروز‘ جب کراچی سے شائع ہونا شروع ہوا تو اس میں ابن انشا نے کالم لکھنا شروع کیے اور تقریباً 10 سال تک حاجی بابا اصفہانی، درویش مشقی، پہلا درویش کے قلمی نام سے کالم لکھتے رہے۔ ’امروز‘ میں چہار درویش کے نام سے کبھی قاضی ابرار، کبھی نصراللہ خان اور کبھی ابن انشا بھی کالم لکھا کرتے تھے۔

1965میں ’باتیں انشاء جی کی‘ کے عنوان سے ’انجام‘ میں ’آپ سے کیا پردہ‘ کے نام سے کالم نویسی کی۔ 1967 میں اخبار جہاں کے اجرا کے بعد سے ’ باتیں انشاء جی کی‘ کے عنوان سے کالم لکھے۔ جو کہ دراصل ان کے ’سفری کالم ‘ تھے۔

1963ء میں ’حریت‘ میں ان کا ایران کے سفر کا احوال کالموں کی صورت میں چھپا، 1964 سری لنکا کے سفر کا حال ’انجام‘ میں کالموں کی شکل میں شائع ہوا۔ روزنامہ جنگ میں کالم نگاری کا آغاز 1966 سے کیا۔ اس آغاز کو بھی وہ کمال بیان کرتے ہوئے اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ ’ایک زمانہ تھا کہ ہم قطب بنے اپنے گھر میں بیٹھے رہتے تھے اور ہمارا ستارہ گردش میں رہا کرتا تھا۔ پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ہم خود گردش میں رہنے لگے اور ہمارے ستارے نے کراچی میں بیٹھے بیٹھے آب و تاب سے چمکنا شروع کردیا، پھر اخبار جنگ میں ’آج کا شاعر‘ کے عنوان سے ہماری تصویر اور حالات چھپے۔ چونکہ حالات ہمارے کم تھے لہٰذا ان لوگوں کو تصویر بڑی کرا کے چھاپنی پڑی اور قبول صورت، سلیقہ شعار، پابند صوم و صلوٰۃ اولادوں کے والدین نے ہماری نوکری، تنخواہ اور چال چلن کے متعلق معلومات جمع کرنی شروع کردیں۔ یوں عیب بینوں اور نکتہ چینیوں سے بھی دنیا خالی نہیں۔ کسی نے کہا یہ شاعر تو ہیں لیکن آج کے نہیں۔ کوئی بے درد بولا، یہ آج کے تو ہیں لیکن شاعر نہیں۔ ہم بددل ہوکر اپنے عزیز دوست جمیل الدین عالی کے پاس گئے۔

انہوں نے ہماری ڈھارس بندھائی اور کہا دل میلا مت کرو۔ یہ دونوں فریق غلطی پر ہیں۔ ہم تو نہ تمہیں شاعر جانتے ہیں نہ آج کا مانتے ہیں۔ ہم نے کسمسا کر کہا، یہ آپ کیا فرمارہے ہیں؟ بولے، میں جھوٹ نہیں کہتا اور یہ رائے میری تھوڑی ہے سبھی سمجھ دار لوگوں کی ہے‘۔ ان کے ایک کالم کا عنوان تھا ’دخل در معقولات‘ اور جنگ میں ہی ’آوارہ گرد کی ڈائری سے‘ کے عنوان سے سفری کالم بھی دوران سفر لکھ کے بھیجا کرتے تھے۔

یہ سلسلہ ان کی وفات تک چلتا رہا۔ ابن انشا کے سفرنامے ہی دراصل فکاہیہ کالموں کی صورت میں اخباروں میں شائع ہوا کرتے تھے اور ابن انشا اپنے ان سفرناموں پر مبنی کالموں کو سفری کالم کہا کرتے تھے۔ 1978 میں انہیں حکومت کی جانب سے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی ملا۔ وہ غزل گو شاعر بھی تھے ۔ ان کی مقبول عام غزلیں اور نظم ’انشا جی اٹھو اب کوچ کرو‘، ’کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تیرا‘ اور ’یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں جو لوگوں نے پھیلائی ہیں‘ ابھی تک ریڈیو اور ٹی وی سے سنائی دیتی ہے۔

ابن انشا خون کے سرطان میں مبتلا ہوگئے تھے اور ان کی صحت تیزی سے گرتی جارہی تھی۔ 1976میں وہ ٹوکیو جاپان گئے اور وہاں بھی ان کا علاج ہوا مگر افاقہ نہ ہوا اور وہ مایوسی میں مبتلا ہوتے چلے گئے، اسی ذہنی کیفیت میں 29 نومبر کو انھوں نے اپنی شہرہ آفاق نظم لکھی:۔

اب عمر کی نقدی ختم ہوئی

اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے

ہے کوئی جو ساہو کار بنے؟

ہے کوئی جو دیون ہار بنے؟

کچھ سال، مہینے، دن لوگو!

پر سود بیاج کے بن لوگو؟

سود بیاج کے بغیر دو چار سال اور زندگی کی تمنا کرنے والے ابن انشا محض 50سال کی عمر میں 11 جنوری 1978 کو لندن میں انتقال کر گئے۔ ان کی تدفین کراچی کے پاپوش نگر قبرستان میں ہوئی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp