خیبر پختونخوا کے شہر ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والی سعدیہ ساجد ایک باہمت ماں ہیں جو نہ صرف اپنے 3 اسپیشل بچوں کی دیکھ بھال کر رہی ہیں بلکہ ان کے مستقبل کے لیے ایسے بچوں کا اسکول بھی چلا رہی ہیں۔
سعدیہ کے تینوں بچے ڈگو میلکائر کلاوسن سنڈروم (ڈی ایم سی) نامی ایک ایسے مرض کا شکار ہیں جس کے مریضوں کی تعداد پوری دنیا میں 100 سے بھی کم ہے۔
ڈی ایم سی ایک نادر جینیاتی مرض ہے جس کے سبب ہڈیوں کے ڈھانچے میں غیر معمولی پن آ جاتا ہے جو بچوں میں مائیکروسیفلی اور انٹیلیکچول ڈس ایبیلیٹی کے ساتھ جسمانی کمزوری، چھوٹا قد اور ہڈیوں کے بیٹھ جانے جیسے مسائل پیدا کردیتا ہے اور ایسے بچوں کے لیے زندگی گزارنا انتہائی مشکل کر دیتا ہے۔
وی نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں سعدیہ نے کہا کہ ‘لوگ میرے بچوں کی حالت زار دیکھ کر ہم سے اظہار افسوس کرتے تھے جب کہ معاشرتی رویوں کے باعث میرے بچوں کو کوئی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا‘۔
سعدیہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں جو بچوں کی پیدائش سے قبل ایک اسکول میں ملازمت کر رہی تھیں جہاں انہیں ترقی کے کئی مواقع بھی میسر تھے۔
Related Posts
وہ بتاتی ہیں کہ وہ اسی تعلیمی ادارے میں اپنے بڑے بچے کو بھی پڑھانا چاہتی تھیں مگر یہاں اسپیشل بچوں کی تعلیم کا کہاں سوچا جا سکتا ہے اس لیے اسکول انتظامیہ نے یہ کہہ کر انہیں اجازت نہیں دی کہ ‘میڈم ہمیں یوں لگ رہا ہے کہ جیسے یہ معذور بچوں کا اسکول ہے’۔
سعدیہ نے کہا کہ وہ ان کی زندگی کا ایک فیصلہ کن موڑ تھا کہ جب انہوں نے نوکری چھوڑ کر یہ تہیہ کیا کہ وہ اب پیچھے مڑ کر نہیں دیکھیں گی۔
انہوں نے کہا کہ ‘میں چاہتی تھی کہ جس کرب سے میں گزر رہی ہوں کوئی اور ماں نہ گزرے لہذا اسی عزم کے ساتھ اپنے گھر کے ایک حصے میں ہی اسپیشل بچوں کا اسکول قائم کرلیا’۔
سعدیہ نے اپنے اس خاص اسکول کا نام رائز اسپیشل اسکول رکھا جس کا پہلا طالبعلم ان کا بڑا بیٹا تھا اور اب سینکڑوں اسپیشل بچے اس اسکول سے پڑھ کر فارغ ہو چکے ہیں۔
باہمت ماں نے اپنے ادارے کو معاشرتی روایات کے برعکس چلانے کا فیصلہ کیا اور ضرورت مند طلبہ کو مکمل سہولت فراہم کرتے ہوئے انہیں ایک بہتر تعلیمی سفر پر گامزن ہونے میں مدد دی۔
سعدیہ کے بقول وہ اپنے بچوں کی طرح اسکول میں داخل دوسرے اسپیشل بچوں کی ضروریات کا خاص خیال رکھتی ہیں اور انہیں ہر ممکن سہولیات مہیا کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ‘ضرورت مند طلبہ کی مالی اعانت جس میں ان کے لیے کتابیں، یونیفارم اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات بھی اسکول اٹھاتا ہے جس سے انہیں دلی تسکین اور خوشی محسوس ہوتی ہے’۔
بات یہیں تک نہیں بلکہ رائز اسپیشل اسکول کے طلبہ بہتر تعلیم و تربیت کے حصول کے علاوہ قومی و بین الاقوامی مقابلوں میں بھی حصہ لے کر کامیابیاں اپنے نام کر رہے ہیں۔
سنہ 2015 میں برونائی دارالسلام سے طلبہ سپورٹس میں میڈل جیت کر لائے جب کہ سنہ 2017 میں 2 بچیاں آسٹریلیا گئیں اور وہاں سے جیت اپنے نام کر کے طلائی تمغے حاصل کیے۔ گزشتہ برس ایک اسپیشل طالبہ نے برلن جرمنی میں اسپورٹس مقابلے میں حصہ لیا تھا۔