بلاول پارٹی کو لاہور میں واپس لا پائیں گے؟

جمعہ 12 جنوری 2024
author image

احمد ولید

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان پیپلز پارٹی نے 8 فروری کے عام انتخابات میں پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو کو لاہور کے حلقہ این اے 127 سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے ساتھ پارٹی نے کوشش کی لاہور کے دوسرے حلقوں میں بھی چند مشہور اور سنجیدہ امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دیے جائیں۔

ماضی میں بھی پارٹی نے بہت جدوجہد کی کہ کسی طرح سے اس کی پنجاب میں واپسی ہو سکے مگر تمام کوششیں ناکام ہوگئیں۔

اس مرتبہ لگ رہا ہے پاکستان پیپلز پارٹی نے اندازہ لگایا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے اور اس موقع سے فائدہ اٹھا کر کیوں نا اپنا کھویا ہوا ووٹ واپس حاصل کیا جائے۔

لاہور کے تقریباً ہر حلقے میں پیپلز پارٹی کا قریباً 25 سے 30 ہزار ووٹرپارٹی کی لاتعلقی اور عدم دلچسپی کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کی طرف منتقل ہوچکا ہے جسے واپس پارٹی کی جانب راغب کرنا ایک کٹھن مرحلہ ہو گا۔

دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ نواز نے بھی پیپلز پارٹی کو لاہور اور پھر پنجاب بدر کرنے کے لیے خاصی جدوجہد کی اور دیگر روایتی سیاسی حربے استعمال کیے۔

پاکستان مسلم لیگ ن چاہتی تھی کہ وہ اپنے سیاسی حریف کو نیست و نابود کرکے ہمیشہ کے لیے پنجاب کو اپنا گڑھ بنا لیں۔ مگر 2008 کے الیکشن کے بعد فرینڈلی اپوزیشن کے کردار نے پاکستان مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے سامنے ایسا حریف لا کھڑا کیا جس نے دونوں جماعتوں کے اوسان خطا کر دیے-

مینارپاکستان کے مقام پر پاکستان تحریک انصاف کے تاریخی جلسے کے بعد مقامی قیادت اور دلچسپی سے محروم پیپلز پارٹی کے ووٹرز نے نواز لیگ کی مخالفت میں پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کا فیصلہ کرلیا۔

2013 کے الیکشن کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت پنجاب بالخصوص لاہور سے لا تعلق ہو گئی۔ پارٹی کے امیدوار درخواست کرتے رہ گئے کہ کوئی سینیئر لیڈر لاہور یا پنجاب کے کسی بڑے شہر میں انتخابی جلسے سے خطاب ہی کرلے مگر پارٹی لیڈرشپ نے ایک نہ سنی۔

ایسا تاثر بھی دیا گیا کہ اس الیکشن میں مسلم لیگ نواز کو حکومت ملنے والی ہے تو پھر پارٹی ’ اپنا پیسہ‘کیوں ضائع کرے۔

الیکشن کے بعد آصف علی زرداری نے ایک موقع پر یہ بھی بتا دیا کہ بین الاقوامی طاقتوں نے پیپلز پارٹی کے اقتدار کے بعد نواز شریف کو حکومت دینے کا منصوبہ بنایا تھا جس میں اسٹیبلشمنٹ کو باور کروایا گیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ کو باری دی جائے گی اور دونوں حکومتوں کو 5 سال کی مدت پوری کرنے دی جائے گی۔

 تاہم دونوں پارٹیوں کے وزرائے اعظم مدت پوری نہ کر پائے اور عدلیہ نے دونوں کو نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا۔ الیکشن سے قبل ایوان صدر میں سینیئر صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں جب ایک سوال کیا گیا کہ آصف علی زرداری آپ کی پارٹی کی لاہورمیں الیکشن کے لیے کیا حکمت عملی ہو گی۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ وہاں انہیں (مسلم لیگ نواز) کو عمران خان خود ہی دیکھ لے گا۔

یوں پیپلز پارٹی نے لاہور اور پنجاب کو پاکستان تحریک انصاف کے حوالے کردیا۔ پارٹی اس پالیسی کا خمیازہ اب بھگت رہی ہے۔ پنجاب میں بڑی تعداد میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے کو ترجیح دی اور 2018 کے انتخابات میں کامیاب بھی ہوئے۔

اس کے بعد پیپلز پارٹی نے پچھلے چند سالوں میں بہت کوشش کی کہ وہ راہیں جدا کرنے والے پارٹی ارکان کو واپس لے آئیں مگر سب کوششیں رائیگاں گئیں۔

سیاست کے بادشاہ آصف علی زرداری نے اب بیٹے بلاول بھٹو زرداری کو نواز لیگ کے قلعہ لاہورمیں الیکشن میدان میں اتار دیا ہے جس کے بعد لاہور میں پہلی مرتبہ آواز اٹھنا شروع ہوئی ہے کہ ہو سکتا ہے بلاول این اے 127 میں کامیاب ہوجائیں، بلاول اس کے لیے بھر کوشش بھی کر رہے ہیں۔

اب بلاول بھٹو اپنے ووٹرز کو راغب کرنے کے لیے لاہور میں جلسوں کے دوران وہ نوازشریف اور عمران خان کو للکار رہے ہیں اور دوسری طرف مکمل خاموشی ہے۔

بلاول کے مقابلے میں نواز لیگ نے عطا تارڑ کو ٹکٹ جاری کیا ہے اور وہ بھی پہلی مرتبہ اس حلقے سے الیکشن لڑیں گے تاہم تحریک انصاف کے ظہیرعباس کھوکھر ایک مضبوط امیدوار ہیں۔

خبریں یہ بھی ہیں کہ مسلم لیگ نواز نے عطا تارڑ کی صورت میں ایک کمزور امیدوار کو بلاول بھٹو کے سامنے کھڑا کیا تاکہ پیپلزپارٹی کچھ حد تک دونوں کے مشترکہ حریف تحریک انصاف کو زچ کر سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp