پاکستان کرکٹ ٹیم اس وقت نیوزی لینڈ میں 5 میچوں پر مشتمل ٹی20 سیریز کھیلنے کے لیے موجود ہے، جہاں ابتدائی تینوں میچوں میں شکست کے بعد سیریز بھی پاکستان کے ہاتھ سے نکل گئی ہے، لیکن یہ کوئی نئی بات تو نہیں کیونکہ 2022 سے اب تک صرف ایک ٹی20 سیریز میں قومی ٹیم کو کامیابی ملی ہے۔
پاکستان کے لیے فتوحات کا سلسلہ 2021 کے بعد جیسے رک ہی گیا ہے۔ پاکستان نے نومبر 2021 میں بنگلہ دیش کو اس کے گھر میں 0-3 سے شکست دی تھی اور پھر دسمبر میں مہمان بن کر آنے والی ویسٹ انڈیز ٹیم کے خلاف بھی نتیجہ یہی رہا۔ مگر اس کے بعد معاملات خراب ہونا شروع ہوئے۔
Related Posts
اپریل 2022 میں آسٹریلیا نے پاکستان میں ایک ٹی20 میچ کھیلا اور پاکستان کو شکست سے دوچار کردیا۔ اس کے بعد ایشیا کپ کھیلا گیا جہاں نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل سری لنکن ٹیم نے ہمیں فائنل میں شکست سے دوچار کردیا۔
اس کے بعد انگلینڈ کرکٹ ٹیم 7 ٹی20 میچوں پر مشتمل سیریز کھیلنے پاکستان آئی اور 3-4 سے سیریز جیت گئی۔
ان تمام تر شکستوں کے بعد بالآخر قومی ٹیم کو اکتوبر 2022 میں ٹی20 سیریز میں فتح نصیب ہوئی جب اس نے نیوزی لینڈ میں سہ ملکی سیریز کے فائنل میں میزبان کو 5 وکٹوں سے شکست دی تھی۔ مگر اس کے بعد حالات پھر نازک ہوگئے کیونکہ اس سیریز کے بعد پاکستان نے ورلڈ کپ کھیلا اور وہاں فائنل میں انگلینڈ کے ہاتھوں شکست ہوئی۔
لیکن اس پورے دورانیے میں قومی ٹیم کو جو سب سے بڑا دھچکا لگا وہ افغانستان کے خلاف ٹی20 سیریز میں شکست کی صورت تھا۔ مارچ 2023 میں افغانستان نے 3 ٹی20 میچوں پر مشتمل سیریز 1-2 سے اپنے نام کرلی۔ اس سیریز میں شاداب خان پہلی مرتبہ بطور کپتان کھیلے تھے۔ اس سیریز کی اہم بات یہ تھی کہ اس میں صائم ایوب اور اعظم خان نے انٹرنیشنل ڈیبیو کیا تھا مگر وہ دونوں ہی کھلاڑی ناکام رہے تھے اور یوں انہیں ٹیم سے باہر کردیا گیا۔
اس کے بعد نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم پاکستان آئی اور 5 میچوں کی سیریز 2-2 سے برابر ہوگئی یعنی ہوم گراؤنڈ پر بھی قومی ٹیم کو کامیابی کا مزہ چکھنے کا موقع میسر نہیں آیا۔
اگر مختصراً بات کروں تو گزشتہ 2 سالوں میں پاکستان نے 7 سیریز کھیلی ہیں اور ان میں محض ایک میں کامیابی نصیب ہوئی ہے، اگر مزید تفصیل سے بات کروں تو 37 میچ کھیلے جن میں سے 17 میں کامیابی حاصل ہوئی۔
چلیں ہارنے کی تو اب ہمیں عادت ہوچکی ہے مگر شکست سے زیادہ پریشانی ہمیں اس بات کی ہوتی ہے کہ اب اس کا ملبہ کس پر ڈالا جائے تو اچھی خبر یہ ہے کہ ہمارے پاس اس سیریز میں کچھ نئے کھلاڑی تھے جنہیں بلی کا بکرا باآسانی بنایا جاسکتا ہے۔ اگرچہ سینیئر کھلاڑیوں محمد رضوان نے سیریز میں اب تک 56 رنز بنائے، افتخار احمد نے 29 اور فخر زمان نے 84 رنز بنائے مگر ساری غلطی صائم ایوب اور اعظم خان کی ہی ہے، اس لیے فوری طور پر ان کو باہر نکال دیا جائے۔
اگربولنگ کی بات کی جائے تو کیا ہوا اگر شاہین شاہ آفریدی نے 3 میچوں میں 119 رنز دے کر 4 وکٹیں لیں، کیا ہوا اگر حارث رؤف نے 132 رنز دے دیے، 7 وکٹیں بھی تو لی ہیں، اس لیے میرا خیال ہے کہ فوری طور پرعباس آفریدی، زمان خان اور عامر جمال کو گھر بھیج دیا جائے، اگر یہ نوجوان ٹیم کے کام نہیں آسکتے تو ان کی ٹیم میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔
کپتان کے لیے ہم نے یہ آسانی تو کردی ہے کہ شکست کا ملبہ کس پر ڈالنا ہے مگر ساتھ ان کو جگانے کی ضرورت بھی ہے کہ جناب اعلی، اُٹھ جائیے، جاگ جائیے، کیونکہ ورلڈ کپ اب سر پر ہے۔
ہمارا حال یہ ہے کہ ٹی20 ورلڈ کپ اب سے چند ماہ کی دُوری پر ہے اور پاکستان کرکٹ ٹیم کا کومبینیشن بُری طرح متاثر ہوچکا ہے۔ نہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ ہمارے پاس بولرز کونسے ہیں، نہ اوپننگ جوڑی سے متعلق ہمیں یقین ہے، پھر وکٹ کیپر کون ہوگا اس حوالے سے بھی ہم ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔
ورلڈ کپ 2024 سے پہلے پاکستان کرکٹ ٹیم کو 6 ٹی20 بین الاقوامی مقابلے کھیلنے ہیں۔ 2 نیوزی لینڈ اور 4 میچ انگلینڈ کے خلاف جو انگلینڈ میں ہی کھیلے جانے ہیں۔ اس لیے قومی ٹیم کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے اور انہی 6 مقابلوں میں پاکستان کو اپنا بہترین کومبینیشن تیار کرنا ہے۔
بدقسمتی سے نئے کپتان شاہین شاہ آفریدی پر 3 شکستوں کے بعد ہی دباؤ بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے لیکن ان کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ اس دباؤ میں آئے بغیر وہ فیصلے کریں جو ان کو ٹھیک لگ رہے ہیں۔ ابھی بھی سیریز میں مزید 2 میچ باقی ہیں، اگر ہم ان میں کامیابی حاصل کرلیں تو اعتماد میں اضافہ ہوسکتا ہے، مگر کپتان اور ٹیم انتظامیہ کے پاس پلان بی ضرور ہونا چاہیے، کیونکہ بات پھر وہی ہے کہ اب ہمارے پاس وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔