پاکستان سے آئی ایم ایف کے حالیہ مطالبات کو 1998 سے کیوں جوڑا جارہا ہے؟

بدھ 8 مارچ 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) یوں تو اپنے تحریری مقاصد کے مطابق کوئی سیاسی ادارہ نہیں ہے لیکن پاکستانی حکام واضح طور پر سمجھتے ہیں کہ بریٹن ووڈ انسٹیٹیوشنز (بی ڈبلیو آئی)، جیسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک، مکمل طور پر امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کے زیرِ اثر طاقتور کلبوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔

پس منظر میں کی گئی گفتگو میں اعلیٰ پاکستانی حکام نے 1998 کے واقعات کو دہرایا جب اسلام آباد نے بھارت کے جوہری دھماکوں کے جواب میں اپنے جوہری تجربات کیے اور جس کے نتیجے میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے فنڈز روک دیے گئے تھے۔

اعلیٰ سرکاری اہلکار نے طویل توقف اور کھڑکیوں سے باہر پہاڑی سلسلہ سے مزین افق کو چند منٹ تک دیکھتے رہنے کے بعد بتایا کہ پاکستان نے مئی 1998 میں ایٹمی دھماکا کیا تھا جس کے بعد آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی جانب سے فنڈنگ روک دی گئی۔

’یہ 1998 کے اواخر تھے جب آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے آئی ایم ایف پروگرام کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے 24 پیشگی اقدامات تجویز کیے۔ پوری اقتصادی ٹیم نے تمام پیشگی اقدامات کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے دیر تک بیٹھنا شروع کیا۔‘

لیکن تمام مطلوبہ اقدامات پر عملدرآمد مکمل کرنے پر پاکستان کو 400 ملین ڈالر کے بیرونی فنانسنگ گیپ کی نشاندہی کی گئی۔

’ہماری اقتصادی ٹیم نے آئی ایم ایف کو تجویز کیا کہ پاکستان بحران سے دوچار ملک کی حیثیت سے بیرونی فنانسنگ کا اہل ہوسکتا ہے لیکن آئی ایم ایف مشن نے اسلام آباد کے اس مطالبہ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔‘

پاکستانی ٹیم نے اس وقت کے منیجنگ ڈائریکٹر آئی ایم ایف کے ساتھ ملاقات کی درخواست کی اور انہیں بتایا کہ اسلام آباد قلیل مدت کی فنانسنگ کے لیے اہل ہے اس لیے یا تو یہ فنڈنگ ختم کردی جائے یا اسلام آباد کو فراہم کی جائے۔

’اس موقعہ پر آئی ایم ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر نے اس تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے 400 ملین ڈالرز فراہم کیے جس کے بعد اس فنانسنگ پروگرام کو آئی ایم ایف کے پروگراموں کی فہرست سے نکال دیا گیا۔‘

ماضی کے ان تجربات  کے پیش نطر اب پاکستانی حکام کا موجودہ مشکل حالات کا 1998 کی صورتحال سے موازنہ کرتے ہوئے موقف ہے کہ آئی ایم ایف ایک بار پھر پاکستان کے ساتھ اسی طرزِ عمل کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

ڈاکٹر اشفاق حسن خان وہ واحد پاکستانی ماہرِ معاشیات تھے جنہوں نے 2019 میں اس وقت کے وزیرِاعظم عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ پاکستان کو اس مرتبہ آئی ایم ایف پروگرام میں نہیں جانا چاہیے کیونکہ اسلام آباد امریکا کے حلیفوں میں نہیں کھڑا تھا۔

ان کا موقف تھا کہ دوطرفہ تعلقات کی اس حقیقت کے پیش نظر پاکستان کو آئی ایم ایف کے شکنجے کے تحت سخت اور کڑوے نسخے دیے جائیں گے۔

ان کی پیشگوئی اس وقت ٹھیک ثابت ہوئی جب اس وقت کے سیکریٹری خزانہ یونس ڈھاگا اور گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ سمیت پاکستان کی پوری اقتصادی ٹیم کو مئی 2019 میں آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران غیر رسمی طور پر باہر کا راستہ دکھادیا گیا۔

آئی ایم ایف کیا ہے؟

عالمی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف اپنے تمام 190 رکن ممالک کے لیے پائیدار ترقی اور خوشحالی کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے آئی ایم ایف مالیاتی استحکام اور مالیاتی تعاون کے فروغ پر مبنی معاشی پالیسیوں کی حمایت کرتا ہے، جو پیداواری صلاحیت، روزگار کی تخلیق اور معاشی بہبود کو بڑھانے کے لیے ناگزیر ہیں۔ آئی ایم ایف اپنے رکن ممالک کے زیرِ انتظام اور انہی کو جوابدہ ہے۔

آئی ایم ایف کیا کرتا ہے؟

آئی ایم ایف کے 3 اہم مشن ہیں: بین الاقوامی مالیاتی تعاون کو آگے بڑھانا، تجارت اور اقتصادی ترقی کی توسیع کی حوصلہ افزائی کرنا، اور خوشحالی کو نقصان پہنچانے والی پالیسیوں کی حوصلہ شکنی کرنا۔ ان مشنز کی تکمیل کے لیے آئی ایم ایف کے رکن ممالک دیگر بین الاقوامی اداروں سمیت ایک دوسرے کے ساتھ باہم اشتراک عمل کرتے ہیں۔

اب پاکستان اور آئی ایم ایف 2023 میں آئی ایم ایف کے رکے ہوئے پروگرام کی بحالی کے لیے اختلافات کو کم کرنے کے لیے آخری کوششوں میں مصروف ہیں۔

پاکستان نے 170 ارب روپے کی آمدن کے حصول کے لیے منی بجٹ کی نقاب کشائی، بجلی کی قیمتوں میں 11 روپے فی یونٹ جبکہ گیس ٹیرف میں غیر معمولی اضافہ، ایکسچینج ریٹ میں بڑے پیمانے پر ایڈجسٹمنٹ جیسے پیشگی اقدامات پر عملدرآمد مکمل کرلیا ہے۔

لیکن اس ضمن میں ابھی کافی گنجائش موجود ہے یہی وجہ ہے کہ عملے کی سطح پر معاہدے پر دستخط ہونا باقی ہیں۔

پاکستانی حکام عملے کی سطح پر معاہدے کے حصول کی اس ہفتے میں امیدیں باندھ رہے ہیں لیکن انہیں 1998 کے وہ واقعات بھی یاد ہیں جب تمام اقدامات پر عملدرآمد کے باوجود عالمی بینک کے ڈائریکٹر نے آئی پی پیز کے مسائل حل کیے بغیر لیٹر آف انٹینٹ اور عملے کی سطح پر معاہدے کو آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے سامنے ایجنڈا آئٹم کے طور پر رکھنے سے انکار کردیا تھا۔

اس وقت درپیش صورتحال سے نمٹنے کے لیے نجی شعبے کے ایک فرد کو تنازعات کے حل کی کمیٹی کا سربراہ مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ رات گئے ان کی رہائش گاہ پر کیے گئے فون کے جواب میں بتایا گیا کہ وہ لاہور سے کراچی کا سفر کررہے ہیں۔ چیف سیکرٹری سندھ کو ان کے کراچی پہنچنے پر رابطے کی ذمہ داری سونپی گئی۔

نجی شعبہ سے وابستہ وہ صاحب جیسے ہی کراچی ایئرپورٹ پر اترے تو انہیں اسلام آباد واپس آنے اور تنازعات کے حل کی کمیٹی کا اجلاس بلانے کی درخواست کی گئی اور اس کے ساتھ ہی عالمی بینک کے ڈائریکٹر کو آگاہ کیا گیا کہ ان کی تشویش دُور کردی گئی ہے۔

موجودہ صورتحال کے پیش نظر اس مرتبہ دیکھتے ہیں کہ یہ بقایا 9واں جائزہ کیسے مکمل ہوتا ہے اور پھر ملکی اقتصادی افق پر منڈلاتے دیوالیہ پن کے خطرے سے بچاؤ کے لیے آئی ایم ایف پروگرام بحال ہوتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp