گلگت بلتستان کے وزیر داخلہ شمس الحق لون نے کہا ہے کہ گلگت میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں ریاست مخالف نعرے لگانے والوں کی نشاندہی ہوچکی ہے انہیں نشان عبرت بنائیں گے۔
شمس لون نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ گندم کی پرانی قیمت عوامی مطالبے پر بحال کردی گئی ہے لیکن اس کی آڑ میں چند لوگوں نے حالات اور دھرنے کو کسی اور رخ کی طرف لے جانے کی کوشش کی ہے جن کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔
وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں کی گئی پریس کانفرنس کے موقع پر وزیر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن حاجی رحمت خالق، معاون خصوصی اطلاعات ایمان شاہ، معاون خصوصی حسین شاہ اور رکن اسمبلی فتح اللہ خان بھی موجود تھے۔
مزید پڑھیں
انہوں نے کہاکہ نگر، استور، اسکردو اور دیامر کے لوگ مرکزی اسٹیک ہولڈرز تھے جو ایک نکاتی ایجنڈا لے کر احتجاج پہ نکلے تھے اور یہ ایک نکاتی ایجنڈا گندم کی پرانی قیمت بحال کرانا تھا جو کرایا گیا جس کے بعد تینوں علاقوں کے لوگوں نے پُرامن طور پر دھرنا ختم کردیا اور گھروں کو روانہ ہوگئے۔
انہوں نے مزید کہاکہ اس تحریک میں بیک ڈور سے کون کس کی ڈوری ہلارہا ہے ہمیں سب پتا ہے۔ 1200 سے 2100 گندم کی قیمت ہوئی تو سارے خاموش کیوں تھے۔ سادہ لوح لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے، گلگت کا دھرنا ہمارے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
شمس لون نے کہاکہ چند کالی بھیڑیں بیرونی فنڈنگ سے اپنے گھر کا چولہا جلا رہی ہیں اور عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ ان لوگوں کی فہرست بھی ہم تک پہنچ چکی ہے۔ آزادی کے نعرے بھی یہاں لگائے گئے ہیں جن کی ڈی ایس آر ہم تک پہنچ چکی ہے ہم لوہے نہیں بلکہ فولادی ہاتھوں سے ان کی گرفت کریں گے۔
گلگت بلتستان میں گندم کی پرانی قیمت بحال ہو چکی ہے، وزیر داخلہ شمس لون
انہوں نے بتایا کہ گلگت بلتستان میں گندم کی سابقہ قیمت بحال ہوچکی ہے۔ سابقہ دور میں غیر معیاری گندم ملتی تھی اور میں خود کابینہ کا حصہ تھا لیکن پورا زور لگانے کے باوجود ہم 15 لاکھ بوری گندم حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے اب الحمدللہ معیاری گندم بھی مل رہی ہے اور ساتھ میں 15 لاکھ بھی پوری مل رہی ہے۔
حکومتی ذمہ داران نے اس موقع پر موقف اپنایا کہ گلگت بلتستان میں صحت کارڈ فروری میں بحال ہوگا۔ ٹیکس لگانے کا کوئی بھی فیصلہ نہیں ہوا اور اگر لگانے کی نوبت آگئی تو صرف غیر مقامی سرمایہ کاروں پر عائد ہوگی۔ اس کے علاوہ اگر کوئی مطالبہ باقی رہا تو حکومت نے 6 رکنی کمیٹی قائم کردی ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی سمیت کوئی بھی اس میں پیش ہوکر بات کرسکتا ہے اور کمیٹی کو بااختیار رکھا گیا ہے۔