پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان نے میانوالی کے حلقے این اے 89 اور لاہور کے حلقے این اے 120 سے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کر دی ہیں۔
مزید پڑھیں
عمران خان نے ان درخواستوں میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ انہیں کسی اخلاقی جرم کے تحت سزائیں نہیں دی گئیں اس لیے انہیں انتخابات لڑنے کی اجازت دی جائے۔
سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے اگرچہ درخواستوں پر اعتراض عائد کیا ہے لیکن ممکنہ طور پر اگر اعتراض دور ہو کر یہ درخواستیں سماعت کے لیے مقرر ہو جاتی ہیں تو ان پر سماعت یقیناً ایک نئی دلچسپ صورت اختیار کر جائے گی۔
سپریم کورٹ اس سے قبل چوہدری پرویز الٰہی، صنم جاوید، شوکت بسرا اور میجر (ر) طاہر صادق سمیت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) سے وابستہ متعدد اُمیدواروں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے چکی ہے۔
وی نیوز نے یہاں ان امیدواران کی تفصیلات جمع کی ہیں جن کو سپریم کورٹ آف پاکستان سے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ملی یا پھر ان کی درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔
سپریم کورٹ اب تک 6 امیدواروں کی اپیلیں منظور کر چکی ہے
25 جنوری کو سپریم کورٹ نے این اے 91 بھکر سے پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار ثناءاللہ مستی خیل کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی تھی۔
ان کے وکیل کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ ملتان بینچ نے اشتہاری ہونے کی بنا پر ان کے مؤکل کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکا جبکہ وہ سرنڈر کر چکے ہیں اور ضمانت پر رہا ہیں اور اب ان پر دفعہ 144 کی خلاف ورزی کا مقدمہ ہے۔
26 جنوری کو سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں صنم جاوید اور شوکت بسرا کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کیے جانے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی۔
ان دونوں امیدواروں پر اعتراض تھا کہ انہوں نے کاغذاتِ نامزدگی میں سنگل بینک اکاؤنٹ کی بجائے جوائنٹ اکاؤنٹ درج کیا تھا، جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے تھے کہ ریٹرننگ آفیسر کیا الیکٹرانک مائیکروسکوپ لے کر بیٹھا تھا اور جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیے تھے کہ ریٹرننگ آفیسر کے دائرہ اختیار میں صرف 4 چیزیں آتی ہیں، جن کی بنیاد پر وہ کاغذاتِ نامزدگی منظور یا مسترد ہونے کا فیصلہ جاری کر سکتا ہے۔
سپریم کورٹ نے صنم جاوید کو این اے 119 جبکہ شوکت بسرا کو این اے 168 سے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی تھی۔ صنم جاوید حلقہ 119 سے پاکستان مسلم لیگ نواز کی امیدوار مریم نواز کے خلاف انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔
26 جنوری ہی کو سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 32 گجرات سے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کی روح انتخابی عمل ہے۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ جمہوریت کا بنیادی اصول ہے کہ اقتدار عوام کے ہاتھ میں ہوگا، الیکشن عوام کو جمہوری عمل میں شرکت اور نمائندوں کے انتخاب کا موقع دیتے ہیں، نامعقول وجوہات پر کاغذات مسترد کرنا انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالات اٹھاتا ہے اور لوگوں کا حق ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ امیدوار کو آزادی سے ووٹ ڈال سکیں۔
29 جنوری کو سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے امیدوار میجر(ر) طاہر صادق کے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کے خلاف اپیل منظور کرتے ہوئے انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی۔ دوران سماعت سپریم کورٹ میں اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی جب طاہر صادق کی اہلیہ کے کاغذات پر اعتراض کنندہ عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ مجھے تو معلوم ہی نہیں کہ میری جانب سے کوئی اعتراض دائر ہوا ہے۔
30 جنوری کو سپریم کورٹ نے حلقہ این اے 99 اور پی پی 107 فیصل آباد سے پی ٹی آئی امیدوار ملک عمر فاروق کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی اور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا۔
جمیعت علماء اسلام کے رکن کی درخواست مسترد ہوئی
24 جنوری کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے این اے 252 سے جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار عبدالحفیظ لونی کا معاملہ آیا جن کے کاغذاتِ نامزدگی الیکشن ٹربیونل نے مسترد کر دیے تھے۔
عبد الحفیظ لونی نیب مقدمے میں سزا یافتہ تھے اور ان کے وکیل کا کہنا تھا کہ میرے مؤکل کی سزا پوری ہوچکی ہے، الیکشن لڑنےکی اجازت دی جائے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کا مؤکل صرف 2 سال اور 2 ماہ جیل میں رہا، نیب کورٹ نے 10 سال کی سزا اور 5 کروڑ روپے جرمانہ کیا۔
8 سال تک آپ کا مؤکل پے رول پر جیل سے باہر رہا اور 5 کروڑ روپے جرمانہ بھی ادا نہیں کیا، چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے لوگ بلوچستان کے عوام کی نمائندگی نہ کریں اور عبدالحفیظ لونی کے وکیل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ الیکشن نہ لڑیں گھر بیٹھیں الیکشن میں آپ کا خرچہ ہوگا۔ سپریم کورٹ نے عبدالحفیظ لونی کی درخواست مسترد کر دی تھی۔