امریکی خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے ایک سابق افسر کو خفیہ راز افشا کرنے والی ویب سائٹ وکی لیکس کو خفیہ ہیکنگ ٹولز لیک کرنے کے جرم میں 40 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق، سی آئی اے افسر جوشوا شلٹ بچوں کے ساتھ بدسلوکی سے متعلق تصاویر رکھنے کے بھی قصوروار پائے گئے ہیں۔
لیک کیے گئے ’والٹ 7 ٹولز‘ کس کام آتے تھے؟
استغاثہ نے جوشوا شلٹ پر سی آئی اے کے ’والٹ 7‘ ٹولز لیک کرنے کا الزام لگایا ہے۔ یہ ٹولز انٹیلی جنس افسران کو اسمارٹ فونز کو ہیک کرنے اور فون کالز سننے میں میں مدد دیتے ہیں۔
امریکی محکمہ انصاف کے مطابق، 35 سالہ شلٹ نے 2017 میں وکی لیکس کو تقریباً 8761 دستاویزات شیئر کیں جو سی آئی اے کی تاریخ میں ڈیٹا کی سب سے بڑی چوری ہے۔
جوشوا شلٹ ان الزامات کی تردید کرچکے ہیں مگر انہیں 2020، 2022 اور 2023 میں نیویارک میں 3 الگ الگ مقدمات میں سزا سنائی جا چکی ہے۔
گزشتہ روز انہیں جاسوسی، کمپیوٹر ہیکنگ، توہین عدالت، ایف بی آئی کو جھوٹے بیانات دینے اور بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی تصاویر رکھنے کے الزام میں سزا سنائی گئی۔
اس موقع پر امریکی اٹارنی ڈیمین ولیمز کا کہنا تھا، ’جوشوا شلٹ نے امریکی تاریخ میں جاسوسی کے انتہائی سنگین اور گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کر کے اپنے ملک کو دھوکا دیا ہے۔‘
جوشوا شلٹ نے خفیہ معلومات کیوں لیک کیں؟
مقدمے میں پیش کردہ شواہد کے مطابق، جوشوا شلٹ سینٹر فار سائبر انٹیلی جنس میں سوفٹ ویئر ڈویلپر کے طور پر ملازم تھے، یہ ادارہ دہشت گرد تنظیموں اور دنیا کے مختلف ممالک کی حکومتوں کے خلاف سائبر جاسوسی کرتا ہے۔
Related Posts
استغاثہ کا کہنا تھا کہ جوشوا شلٹ نے 2016 میں چوری شدہ معلومات وکی لیکس کو منتقل کیں اور پھر ایف بی آئی ایجنٹس سے اس بارے میں جھوٹ بولا۔ استغاثہ نے مزید کہا کہ جوشوا شلٹ نے بظاہر ایک دفتری تنازع کی وجہ سے غصے میں آکر ان جرائم کا ارتکاب کیا۔
اس حوالے سے اسسٹنٹ اٹارنی مائیکل لاکارڈ نے کہا کہ جوشوا شلٹ ایک پروجیکٹ کو مقررہ وقت پر مکمل کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن ان کا پروجیکٹ شیڈول سے بہت پیچھے تھا جس کی وجہ سے انہیں دفتر میں ’ڈرفٹنگ ڈیڈ لائن‘ کے نام سے پکارا جانے لگا تھا۔
استغاثہ نے کہا کہ جوشوا شلٹ ان لوگوں کو سزا دینا چاہتا تھے جو انہیں غلط سمجھتے تھے اور اپنے انتقام کی خاطر انہوں نے قومی سلامتی کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔
وکی لیکس نے 2017 میں جوشوا کی فراہم کردہ فائلز سے خفیہ ڈیٹا شائع کرنا شروع کیا تھا۔
جوشوا کا جیسن بورن سے کیا تعلق ہے؟
استغاثہ کا کہنا تھا، ’اس ڈیٹا لیک نے امریکی مخالفین کے خلاف غیر ملکی انٹیلی جنس جمع کرنے کی سی آئی اے کی صلاحیت کو فوری اور گہرا نقصان پہنچایا؛ سی آئی اے کے اہلکاروں، پروگراموں اور اثاثوں کو براہ راست خطرے میں ڈالا اور سی آئی اے کو کروڑوں ڈالر کا نقصان پہنچایا۔‘
وکی لیکس کی جانب سے ڈیٹا شائع کرنے کے بعد ایف بی آئی نے شلٹ کا کئی بار انٹرویو کیا، تاہم شلٹ نے ان جرائم سے انکار کیا۔ استغاثہ نے کہا کہ شلٹ نے گرفتاری کے بعد مزید معلومات منتقل کرنے کی کوشش کی۔ اس نے جیل میں ایک فون اسمگل کیا اور ایک رپورٹر کو سی آئی اے سائبر گروپس کے بارے میں معلومات بھیجنے کی کوشش کی۔
استغاثہ کے مطابق، جوشوا شلٹ نے ٹویٹس کا مسودہ بھی تیار کیا جس میں سی آئی اے کے سائبر ٹولز کے بارے میں معلومات شامل تھیں۔ اس مقصد کے لیے جوشوا نے ’جیسن بورن‘ کے نام سے اکاؤنٹ بنایا تھا، جو کہ ایک فلمی کردار ہے۔
واضح رہے کہ وکی لیکس کی جانب سے 2017 میں شائع کیے جانے والے ہیکنگ کے مبینہ ٹولز میں ونڈوز، اینڈرائڈ، ایپل کے آئی او سی آپریٹنگ سٹسم، او ایس ایکس، لینکس کمپیوٹرز اور انٹرنیٹ روٹرز کو متاثر کرنے والے وائرس اور نقصان دہ سوفٹ وئیرز شامل تھے۔ جوشوا شلٹ کو خفیہ معلومات لیک کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ 2018 سے جیل میں بند ہیں۔
اس سے قبل 2013 میں امریکی ادارے نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کے ایک ملازم ایڈورڈ سنوڈن نے بھی خفیہ معلومات کو افشا کیا تھا۔