سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال مندوخیل نے اغوا برائے تاوان کے ایک مقدمے کے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ حقائق اور قانون کے خلاف فیصلہ دینے والے جج کے لیے کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔
جسٹس جمال منوخیل نے اغوا برائے تاوان کے ملزمان کی بریت کا فیصلہ برقرار رکھنے کا 8 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ججز کی ذمہ داری ہے کہ ہر شخص کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں، ججز بغیر کسی خوف، دباؤ اور ایمانداری کے ساتھ آئین و قانون پر فیصلوں کے پابند ہیں، ججز کا کام مقدمہ کے حقائق کے مطابق آئین اور قانون کا اطلاق ہے۔
’ججز کو کھلے ذہن کے ساتھ مقدمات کی سماعت کرنی چاہیے‘
تحریری فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ججز کو کھلے ذہن کے ساتھ مقدمات کی سماعت کرنی چاہیے، کسی جج کے کردار پر شک نہیں، غلط فیصلوں کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، جج کو صحیح فیصلے تک پہنچنے کے لیے اپنے اختیارات اور اس کے استعمال کا علم ہونا چاہیے۔
Related Posts
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ناقص تفتیش کی وجہ سے کئی گنہگار بچ جاتے ہیں اور بے گناہوں کو سزا ہوجاتی ہے، ٹرائل کورٹ کی ذمہ داری ہے کہ آئین کے آرٹیکلز 9 اور 10 اے کے تحت شفاف ٹرائل یقینی بنائے، جرم ثابت نہ ہو رہا ہو تو ٹرائل کورٹ کسی بھی مرحلے پر ملزم کو بری کر سکتی ہے۔
جسٹس مندوخیل نے اپنے فیصلے میں کہا کہ بیشتر مقدمات میں اصل ملزمان ناقص تفتیش کی وجہ سے بری ہوجاتے ہیں، کہیں تفتیش ناقص ہوتی ہے تو کہیں گواہان کا عدم تعاون ملزمان کی بریت کی وجہ بنتا ہے، گواہان کے تحفظ کے لیے کوئی طریقہ کار نہ ہونا بھی عدم تعاون کی بڑی وجہ ہے، مدعی کی جانب سے ذاتی عناد پر زیادہ ملزمان کی نامزدگی بھی قصورواروں کو بچانے کا سبب ہوتی ہے۔
’حکومت غیرضروری اور جھوٹے مقدمات کا اندراج روکے‘
تحریری فیصلے میں مزید کہا گیا کہ موجودہ مقدمہ میں ملزمان 7 سال جیل میں رہے، بری تو ہوگئے لیکن بروقت انصاف نہیں ملا، ملزمان کے 7 سال اور قانونی چارہ جوئی پر ہوئے اخراجات کے مداوے کا کوئی طریقہ کار موجود ہی نہیں، سستا اور فوری انصاف ہر شہری کا آئینی حق ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ہدایت کی کہ ملک بھر میں ججز کی تمام خالی آسامیوں پر فوری بھرتیاں کی جائیں، حکومت کا فرض ہے کہ غیرضروری اور جھوٹے مقدمات کا اندراج روکے، یقینی بنایا جائے کہ جھوٹے مقدمات درج کرانے والے بچ نہ سکیں۔
واضح رہے کہ ملزمان کے خلاف 2007 میں بہاولنگر میں اغوا برائے تاوان کا مقدمہ درج ہوا تھا، ٹرائل کورٹ نے 2011 میں ملزمان کو سزائیں سنائیں، ہائیکورٹ نے 2015 میں ملزمان کو بری کر دیا تھا جبکہ سپریم کورٹ نے بریت کے خلاف اپیل گزشتہ سال 27 اکتوبر کو خارج کی تھی۔