حقائق اور قانون کے خلاف فیصلہ دینے والے جج کے لیے کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے، جسٹس جمال مندوخیل

ہفتہ 3 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال مندوخیل نے اغوا برائے تاوان کے ایک مقدمے کے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ حقائق اور قانون کے خلاف فیصلہ دینے والے جج کے لیے کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔

جسٹس جمال منوخیل نے اغوا برائے تاوان کے ملزمان کی بریت کا فیصلہ برقرار رکھنے کا 8 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ججز کی ذمہ داری ہے کہ ہر شخص کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں، ججز بغیر کسی خوف، دباؤ اور ایمانداری کے ساتھ آئین و قانون پر فیصلوں کے پابند ہیں، ججز کا کام مقدمہ کے حقائق کے مطابق آئین اور قانون کا اطلاق ہے۔

’ججز کو کھلے ذہن کے ساتھ مقدمات کی سماعت کرنی چاہیے‘

تحریری فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ججز کو کھلے ذہن کے ساتھ مقدمات کی سماعت کرنی چاہیے، کسی جج کے کردار پر شک نہیں، غلط فیصلوں کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، جج کو صحیح فیصلے تک پہنچنے کے لیے اپنے اختیارات اور اس کے استعمال کا علم ہونا چاہیے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ناقص تفتیش کی وجہ سے کئی گنہگار بچ جاتے ہیں اور بے گناہوں کو سزا ہوجاتی ہے، ٹرائل کورٹ کی ذمہ داری ہے کہ آئین کے آرٹیکلز 9 اور 10 اے کے تحت شفاف ٹرائل یقینی بنائے، جرم ثابت نہ ہو رہا ہو تو ٹرائل کورٹ کسی بھی مرحلے پر ملزم کو بری کر سکتی ہے۔

جسٹس مندوخیل نے اپنے فیصلے میں کہا کہ بیشتر مقدمات میں اصل ملزمان ناقص تفتیش کی وجہ سے بری ہوجاتے ہیں، کہیں تفتیش ناقص ہوتی ہے تو کہیں گواہان کا عدم تعاون ملزمان کی بریت کی وجہ بنتا ہے، گواہان کے تحفظ کے لیے کوئی طریقہ کار نہ ہونا بھی عدم تعاون کی بڑی وجہ ہے، مدعی کی جانب سے ذاتی عناد پر زیادہ ملزمان کی نامزدگی بھی قصورواروں کو بچانے کا سبب ہوتی ہے۔

’حکومت غیرضروری اور جھوٹے مقدمات کا اندراج روکے‘

تحریری فیصلے میں مزید کہا گیا کہ موجودہ مقدمہ میں ملزمان 7 سال جیل میں رہے، بری تو ہوگئے لیکن بروقت انصاف نہیں ملا، ملزمان کے 7 سال اور قانونی چارہ جوئی پر ہوئے اخراجات کے مداوے کا کوئی طریقہ کار موجود ہی نہیں، سستا اور فوری انصاف ہر شہری کا آئینی حق ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ہدایت کی کہ ملک بھر میں ججز کی تمام خالی آسامیوں پر فوری بھرتیاں کی جائیں، حکومت کا فرض ہے کہ غیرضروری اور جھوٹے مقدمات کا اندراج روکے، یقینی بنایا جائے کہ جھوٹے مقدمات درج کرانے والے بچ نہ سکیں۔

واضح رہے کہ ملزمان کے خلاف 2007 میں بہاولنگر میں اغوا برائے تاوان کا مقدمہ درج ہوا تھا، ٹرائل کورٹ نے 2011 میں ملزمان کو سزائیں سنائیں، ہائیکورٹ نے 2015 میں ملزمان کو بری کر دیا تھا جبکہ سپریم کورٹ نے بریت کے خلاف اپیل گزشتہ سال 27 اکتوبر کو خارج کی تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

افغان طالبان رجیم اور فتنہ الخوارج نفرت اور بربریت کے علم بردار، مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب

آن لائن شاپنگ: بھارتی اداکار اُپندر اور اُن کی اہلیہ بڑے سائبر فراڈ کا کیسے شکار ہوئے؟

امریکی تاریخ کا طویل ترین حکومتی شٹ ڈاؤن ختم، ٹرمپ نے بل پر دستخط کر دیے

’فرینڈشپ ناٹ آؤٹ‘، دہشتگردی ناکام، سری لنکن ٹیم کا سیریز جاری رکھنے پر کھلاڑیوں اور سیاستدانوں کے خاص پیغامات

عراقی وزیرِ اعظم شیاع السودانی کا اتحاد پارلیمانی انتخابات میں سرفہرست

ویڈیو

ورلڈ کلچر فیسٹیول میں فلسطین، امریکا اور فرانس سمیت کن ممالک کے مشہور فنکار شریک ہیں؟

بلاول بھٹو کی قومی اسمبلی میں گھن گرج، کس کے لیے کیا پیغام تھا؟

27 ویں ترمیم پر ووٹنگ کا حصہ نہیں بنیں گے، بیرسٹر گوہر

کالم / تجزیہ

کیا عدلیہ کو بھی تاحیات استثنی حاصل ہے؟

تبدیل ہوتا سیکیورٹی ڈومین آئینی ترمیم کی وجہ؟

آنے والے زمانوں کے قائد ملت اسلامیہ