کیا عوامی مینڈیٹ پھر چوری ہوا؟، الیکشن سے پہلے دھاندلی کیسے کی جاتی ہے؟

جمعرات 8 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان  میں ماضی کی طرح عام انتخابات 2024 میں بھی انتخابات میں پولنگ سے قبل دھاندلی کے بے شمار الزامات سامنے آئے ہیں، جہاں کئی نشستوں پر عوامی مینڈیٹ ایک بار پھر سوالیہ نشان بن گیا ہے۔

 پارٹی کارکنوں کے تاثرات پر مبنی ایک تجزیہ جو ماضی میں دھاندلی کے طریقوں میں خود ملوث رہے ہیں، نے الیکشن میں کی جانے والی منظم دھاندلی کے بارے میں تفصیلات بتائی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ دھاندلی پولنگ کے دن سے بہت پہلے شروع ہو جاتی ہے، جسے پری پول دھاندلی کہا جاتا ہے، لیکن نتائج پر اس کا اثر 10 سے 20 فیصد زیادہ ہوسکتا ہے۔

مزید پڑھیں

سیاسی کارکنوں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ دراصل انتخابات کے دن کی دھاندلی ہوتی ہے جو سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اگرچہ یہ پورے پاکستان میں ہوتا ہے، لیکن خاص طور پر کراچی میں یہ انتہائی منظم طریقے سے کی جاتی ہے۔ پولنگ کے دن دھاندلی کے بارے میں بات کرنے سے پہلے اس بات پر بات کرتے ہیں کہ انتخابات سے پہلے دھاندلی کا کیا مطلب ہے۔

انتخابات سے قبل دھاندلی کا سب سے پہلا اور بنیادی طریقہ کار یہ ہے کہ انتخابی سرگرمیوں میں اکثر محکمہ ریونیو اور الیکشن کمیشن کے تعاون سے حلقہ بندیاں کی جاتی ہیں اور ان حلقہ بندیوں میں بھی من پسند سیاسی جماعتوں کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق حلقہ بندیوں کی ذمہ داری زیادہ تر اقتدار میں موجود پارٹی کی ہوتی ہے، اس کا مقصد حکمت عملی کے تحت انتخابی حلقوں میں رائے دہندگان کی تعداد کو تقسیم کرنا، اس عمل کو پیچیدہ بنانا اور زیادہ سے زیادہ وقت ضائع کرنا ہوتا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کراچی میں یہ کام زیادہ منظم طریقے سے کیا جاتا ہے کہ اس کا مقصد تقریباً حریف سیاسی جماعتوں یا گروہوں یا کراچی میں مخالف نسلی گروہ کے ووٹوں کو تقسیم کرنا ہوتا ہے۔

اس کی پہلی مثال ملیر میں صوبائی اسمبلی کی ایک نشست کو قومی اسمبلی کی دو نشستوں میں تقسیم کیا گیا۔ منگھوپیر روڈ کے مضافات کو نارتھ ناظم آباد کے 2 حلقوں میں تقسیم کیا گیا جہاں پہاڑی کے دونوں اطراف دو مختلف نسلی گروہوں کے لوگ رہتے تھے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ  پولنگ اسٹیشن کے اندر پولنگ ایجنٹوں اور متعلقہ پارٹی سٹالز پر مختلف ٹیموں کی مدد سے ووٹنگ پیٹرن کی نگرانی کی جاتی ہے ۔ پارٹی کے لیے منفی رجحان کی صورت میں مختلف ہتھکنڈوں کا استعمال کیا جاتا ہے، کمزور علاقوں میں مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعہ انتخابی عمل کو سست کرنا، تشدد کا سہارا لینا یا نتائج پر اثر انداز ہونے کے لیے ووٹوں پولنگ اسٹیشن پر ہی چیلنج کرنا شامل ہے۔

ماضی میں اس کی مثال 2013 کے انتخابات میں بھی دیکھنے کو ملی جہاں کراچی کی ایک نشست پر ایک پارٹی کو اپنے پولنگ ایجنٹوں اور کارکنوں کے ذریعے دوپہر کے وقت پتہ چلا کہ ووٹنگ اس کے حق میں نہیں تو اس نے کم معروف امیدوار پر دباؤ ڈالا، جہاں اسے ووٹ مل رہے تھے وہاں ووٹنگ کو سست کر دیا اور ان پولنگ اسٹیشنوں پر جعلی ووٹ ڈالے جہاں پارٹی کا کنٹرول تھا یوں پارٹی کے امیدوار نے دھاندلی کے ذریعے کامیابی حاصل کی۔

الیکشن کو قریب سے مانیٹر کرنے والے تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کراچی میں ایک عمل یہ بھی کیا جاتا ہے کہ پولنگ کے دن سہ پہر 3 بجے مضبوط گڑھ کے پولنگ اسٹیشنوں پر زبردستی قبضہ کر لیا جاتا ہے۔ پولنگ ایجنٹوں کی فراہم کردہ معلومات کا استعمال کرتے ہوئے ووٹ ڈالنے کے لیے کارکنوں کو بیلٹ پیپر کی کتابیں فراہم کی جاتی ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق حاصل کردہ بیلٹ پیپرز کے ذریعے یہ عمل اتنے منظم طریقے سے کیا جاتا ہے اور اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ پولنگ اسٹیشن پر موجود ووٹرز کی مطلوبہ تعداد سے تجاوز نہ کیا جائے تاکہ کسی کو شک تک نہ گزرے، اس کے علاوہ مخالف کو کچھ جعلی ووٹ بھی ڈالے جاتے ہیں تاکہ ٹریبونل کی اپیل پر  ایک فریق کو جعلی ووٹنگ کا ذمہ دار نہ ٹھہرایا جاسکے۔

تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولنگ ختم ہونے کے بعد جب گنتی کا  مرحلہ مرحلہ آتا ہے اور نتائج ریٹرننگ افسر (آر او) کو منتقل کیے جاتے ہیں تو  طاقت ور پارٹی اکثر سرکاری دباؤ یا مالی پیشکش کے ذریعے آر او پر اثر انداز ہوتی ہے۔ سیل شدہ بیگ کھولے جاتے ہیں اور نتائج کو تبدیل کیا جاتا ہے اور پھر  اور دوبارہ سیل کر دیا جاتا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یہاں دھاندلی کا ایک اور طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ حریف امیدوار کے ووٹوں پر دو بار مہر لگائی جاتی ہے تاکہ دوبارہ گنتی کی اپیل نہ کی جا سکمے اور دوبارہ گنتی کے دوران مخالف کے ووٹ مسترد کیے جا سکیں۔یوں کراچی میں مینڈیٹ چوری کر لیا جاتا ہے۔

کراچی میں جماعت اسلامی کی شکایات

ادھر جماعت اسلامی کراچی نے بھی صوبائی الیکشن کمشنر سندھ کو لکھا ہے کہ کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی ) کی دھاندلی رنگے ہاتھوں پکڑ گئی ہے، جس نے ضلع کراچی لیاری حلقہ این اے اور پی ایس 106 کے پولنگ اسٹیشن نمبر 115 ، نالہ ولا اسکول ہنگورہ آباد میں منظم انداز سے دھاندلی کی ہے۔

جماعت اسلامی نے کہا کہ مذکورہ پولنگ اسٹیشن میں پیپلز پارٹی کے کارکنا بیلٹ پیپرز چور کر کے ٹھپے لگا رہے تھے جو کہ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔

پاکستان تحریک انصاف کی شکایات 

ادھر پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے الیکشن سیل کے انچارج بیرسٹر علی طاہر نے الیکشن 2024 میں دھاندلی کا الزم لگاتے ہوئے، کراچی الیکشن کمیشن سیل کو خط لکھ کر شکایت کی ہے کہ پولنگ اسٹیشن نمبر 180 اور 181 کاشان کے قریب پرنس گارڈن اسکول میں واقع ہیں۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 238 اور صوبائی اسمبلی کا حلقہ پی ایس 102 میں پولنگ اسٹیشنز سے تحریک انصاف کے پولنگ ایجنٹس کو زبردستی ہٹا دیا گیا ہے جس سے انتخابی عمل کی سالمیت اور شفافیت پر سوال اٹھتا ہے۔ یہاں دھاندلی کی گئی جس کے ہمارے پاس ویڈیو ثبوت بھی ہے، فوری تحقیقات کی جائیں۔

ریحانہ بزدار کے الزامات 

ادھر سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی والدہ آزاد امیدوارہ ریحانہ ڈار نے حلقہ این اے۔71  سے خواجہ آصف پر دھاندلی کا الزام عائد کیا ہے۔

ریحانہ ڈار نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر اپنی ایک پوسٹ میں الزام لگایا کہ 8  بج چکے ہیں لیکن مجھے ابھی تک فارم 45 نہیں دیئے جا رہے۔

میں اپنے کارکنان کے ہمراہ ریٹرننگ افسر کے دفتر گئی تو مجھ پر جوابی حملہ کیا گیا۔ خواجہ آصف ڈی پی او،ڈپٹی کمشنر اور پریزائڈنگ افسران سے مل کر میری جیت کو شکست میں بدلنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔

حافظ نعیم الرحمان کی شکایات 

جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ پولنگ کا وقت ختم ہوتے ہی پولنگ اسٹیشنز کو ایم کیو ایم کے غندوں کے حوالے کرنا شروع کردیا گیا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری اپنے ایک ویڈیو پیغام میں حافظ نعیم االرحمان نے کہا کہ شاہ فیصل کالونی، ناظم آباد اور دیگر علاقوں میں رینجرز کے سامنے فائرنگ کرکے پولنگ عملے کو یرغمال بنا لیا گیا۔

صبح سے نشاندہی کررہے ہیں کہ کئی جگہوں پر ووٹر بکس غائب ہیں اور کئی جگہوں پر ہمارے کارکنان نے پہلے سے ٹھپہ لگے بیلٹس برآمد بھی کیے ہیں۔ الیکشن کمیشن اور ادارے بتائیں کہ یہ کیسا الیکشن ہے؟ ٹی وی چینلز بھی بتائیں کو وہ کیوں خاموش ہیں؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp