پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ وقت آگیا ہے ہم ایک بار پھر پاکستان کھپے کا نعرہ لگائیں، اس لیے پاکستان پیپلزپارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم حکومت کی تشکیل میں مسلم لیگ ن کا ساتھ دیں گے، تاہم وفاقی حکومت میں ہم وزارتیں نہیں لیں گے۔
پیپلزپارٹی کے سی ای سی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہمیں مینڈیٹ نہیں ملا اس لیے خود کو وزیراعظم کی دوڑ میں شامل نہیں کررہا۔
لائیو: پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی میڈیا سے گفتگو https://t.co/TzCekjm5GR
— Pakistan Peoples Party – PPP (@PPP_Org) February 13, 2024
انہوں نے کہاکہ مسلم لیگ ن نے ہمیں حکومت کا حصہ بننے کی دعوت دی ہے مگر پیپلزپارٹی وفاقی کابینہ کا حصہ بننے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
بلاول بھٹو نے کہاکہ پیپلزپارٹی ملک میں سیاسی افراتفری اور بحران نہیں چاہتی اس لیے حکومت کی تشکیل یقینی بنانے کے لیے مسلم لیگ ن کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار کو ووٹ دیں گے۔
’میں کہتا ہوں کہ میاں صاحبان جانیں اور عمران خان، میں اس حکومت کا حصہ نہیں بنتا‘۔
مزید پڑھیں
انہوں نے کہاکہ ہم 16 ماہ تک مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحادی حکومت میں رہے جس سے پارٹی کو شکایات ہیں، ہم نے سی ای سی کے اجلاس میں ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔
بلاول بھٹو نے کہاکہ عمران خان نے تو کہہ دیا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ مذاکرات نہیں کر رہے جس کے بعد پی ٹی آئی کا حکومت میں آنے کا امکان ختم ہوگیا۔ ’پی ٹی آئی سے کہتا ہوں اس وقت اپنے لیے نہیں ملک کے لیے سوچیں‘۔
انہوں نے کہاکہ ہم چاہتے ہیں حکومت سازی کا عمل جلد مکمل ہو، کیونکہ اگر سیاسی بحران ختم نہیں ہوتا تو ایک اور الیکشن کی طرف جانا پڑے گا جو ٹھیک نہیں ہے۔
پیپلزپارٹی کا دیگر جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے کمیٹی بنانے کا فیصلہ
چیئرمین پی پی پی نے کہاکہ پیپلز پارٹی نے دیگر جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے، کمیٹی حکومت سازی کے لیے دوسری جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کرے گی۔ پاکستان میں اب مزید بدامنی نہیں ہونی چاہیے۔
بلاول بھٹو نے کہاکہ ایک تجویز آئی کہ 18 مہینے کے لیے ن لیگ کے ساتھ حکومت میں بیٹھیں لیکن پنجاب اور خیبرپختونخوا سے پیپلز پارٹی نمائندگان نے اعتراض کیا کہ پچھلی اتحادی حکومت میں بھی ان کے کام نہیں ہوتے تھے۔
بلاول بھٹو نے کہاکہ پیپلزپارٹی کو ان انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سے شکایات ہیں لیکن ہم ملک کے وسیع تر مفادات میں الیکشن کے نتائج کو قبول کریں گے۔
انہوں نے کہاکہ سندھ اور بلوچستان میں پیپلزپارٹی حکومت بنائے گی۔ جبکہ آئینی عہدوں کے انتخابات میں ہم اپنے امیدوار سامنے لائیں گے۔
خواہش ہے آصف زرداری صدر مملکت کے امیدوار ہوں
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ صدارت کے الیکشن میں میری خواہش ہوگی کہ آصف زرداری اس میں حصہ لیں۔ کیونکہ وہی ملک میں لگی ہوئی آگ کو بجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہاکہ مسلم لیگ ن کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے لیے نواز شریف آگے آئیں یا شہباز شریف یہ ان کی پارٹی کا فیصلہ ہے۔
انہوں نے کہاکہ الیکشن میں مسلم لیگ ن پر تنقید ووٹ حاصل کرنے کے لیے کی، اُن کو اپنی غلطیاں ماننی چاہییں۔
ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پنجاب پیپلزپارٹی کا مرکز تھا مگر اس الیکشن میں جو ہمارے ساتھ ہوا اس کا فیصلہ کرنا پڑے گا۔ ہم الیکشن سے متعلق اعتراضات کو متعلقہ فورمز پر اٹھائیں گے۔
نتائج نہ ماننا اور دھرنا پی ٹی آئی کی سیاست کا خاصا ہے
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی کو عدم اعتماد کے بعد اپوزیشن لیڈر کا عہدہ چھوڑنے کا کس نے کہا تھا، جب شہباز شریف اور راجا ریاض نے ہی فیصلہ کرنا تھا تو گڑبڑ تو ہونا تھی۔
چیئرمین پی پی پی نے کہاکہ دوبارہ گنتی کے نتیجے میں پی ٹی آئی کو زیادہ نشستیں نہیں مل سکتیں، دھرنا، عدم استحکام اور نتائج نہ ماننا پی ٹی آئی کی سیاست کا خاصا ہے۔
انہوں نے کہاکہ جب پی ٹی آئی یہ کہتی ہے کہ کسی سے بات نہیں کرے گی تو اس کا مطلب ہے کہ وہ پاپولزم کی سیاست کرتی رہے گی جس سے ملک کو خطرات لاحق ہیں۔
ایم کیو ایم کو ملنی والی 18 نشستوں پر تحفظات ہیں
چیئرمین پی پی پی نے ایم کیو ایم پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ متحدہ کو عام انتخابات میں ملنے والی 18 نشستوں پر شدید حیرت ہے اور نتائج پر تحفظات ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہاکہ ایم کیو ایم کے دہشتگرد اس الیکشن میں آزاد کرائے گئے۔ ہم نفرت کی بنیاد پر کراچی کے امن کو خراب نہیں ہونے دیں گے۔