کراچی انٹرمیڈیٹ بورڈ کے فرسٹ ایئر 2023 کے امتحانی نتائج کے معاملے پر فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے سربراہ نے رپورٹ وزیراعلیٰ سندھ کو پیش کردی ہے، جس پر ایکشن لیتے ہوئے وزیراعلیٰ نے انٹربورڈ کے آئی ٹی سیکشن کے انچارج کو فوراً عہدے سے ہٹانے کا حکم دیا ہے۔
انٹر بورڈ کراچی میں 11ویں جماعت کے طلبہ کی اکثریت فیل ہونے کے معاملے پر سندھ حکومت کی فیکٹ فائنڈگ کمیٹی کی مرتب کردہ رپورٹ رپورٹ میں طلبا کے ساتھ نا انصافی ہونے کا انکشاف کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
طلبا کے احتجاج پر نگران وزیر اعلی سندھ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی کی سربراہی میں 3 فروری کو ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی تھی۔
فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے 300 کے قریب امتحانی کاپیوں کی جانچ پڑتال کی، کمیٹی کے مطابق طلبا کی اکثریت کے ساتھ نتائج میں نا انصافی ہوئی ہے کیونکہ طلبا کو تعلیمی سال کے آغاز سے ہی مشکلات کا سامنا رہا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ سال کے وسط تک کتابیں فراہم کرنے میں ناکام رہا، کئی کتابیں تو سال کے آخر تک طلبا کو فراہم نہیں کی جاسکیں، نصاب کے مطابق سیمپل پیپر بھی طلبا کو بروقت فراہم نہیں کیا جاسکا۔
وزیراعلیٰ سندھ نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دیتے ہوئے پری انجنیئرنگ، پری میڈیکل اور جنرل سائنس کے طلبا کو 15 فیصد اضافی مارکس دینے کافیصلہ کیا ہے، کمیٹی کی سفارش پر ریاضی میں 15 ، فزکس اور شماریات میں 12 نمبر اسی طرح کیمسٹری میں 12، بوٹنی اور زولوجی میں 6 نمبر اضافی دیے جائیں گے۔
فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی ہے کہ تعلیمی سال کے آغاز سے پہلے پیپرز کا پیٹرن اورمارکس اسکیم وضع کیا جائے، ذرائع کے مطابق پیپر پیٹرن اور مارکنگ اسکیم کم از کم 3 سال تک نافذ العمل رہے گی۔
جماعت اسلامی کا احتجاج اور دھرنا
یاد رہے کہ جماعت اسلامی کراچی نے اس معاملے پر کراچی انٹرمیڈیٹ بورڈ آفس کے باہر احتجاجی دھرنا دیا تھا۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کا موقف ہے کہ شہر کا سب سے بڑا مسئلہ انٹرمیڈیٹ امتحانات کے نتائج کا ہے، اس بار 80 فیصد بچوں کو امتحانات میں فیل کردیا گیا ہے، کیا یہ لوگ بچوں کو منشیات یا اسٹریٹ کرائم میں ڈالنا چاہتے ہیں؟
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ کراچی دشمنی میں ایسے ہوگئے ہیں کہ کراچی کے بچوں کو ایم ڈی کیڈ کے قابل ہی نہیں سمجھتے۔ نگراں حکومت پیپلزپارٹی کی بی ٹیم لگتی ہے۔ نگراں وزیر اعلیٰ سندھ کو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا، اس تعلیم کشی میں وزیراعلیٰ سندھ براہ راست شامل ہیں۔