عام انتخابات ہوئے 12 دن ہوگئے ہیں، اس وقت حکومت بنانے کے لیے جوڑ توڑ اور اپنی پسند کے عہدے لینے کے لیے پیپلزپارٹی اور ن لیگ متحرک ہیں اب تک ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں حکومت سازی کے لیے 5 اجلاس ہوچکے ہیں، پیپلزپارٹی کی ایک ہی ڈیمانڈ ہے کہ آئینی عہدے انہیں دیے جائیں تب ہم ن لیگ کے نامزد وزیر اعظم شہباز شریف کو ووٹ دیں گے۔ ن لیگی ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی وفاق کے بجائے پنجاب میں وزراتیں لینے میں دلچسپی رکھتی ہے، اب تک جتنے بھی پیپلزپارٹی کے ساتھ دور ہوئے ہیں ان میں پہلے قومی اسمبلی کے اسپیکر ڈپٹی اسپیکر اور صدر مملکت کے عہدوں پر بات ہوئی ہے۔
مزید پڑھیں
ن لیگی ذرائع نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط بتایا کہ ن لیگ آصف علی زرداری کو بطور صدر کے امیدوار کے قبول نہیں کرتی، ہماری پارٹی کی اندر اور نواز شریف کو اس عہدے پر اعتراضات ہیں، نواز شریف چاہتے ہیں کہ ملکر حکومت بنائی جائے کچھ وفاقی وزراتیں ن لیگ کے پاس ہوں اور کچھ پیپلزپارٹی کے پاس ہوں۔
پیپلزپارٹی چاہتی ہے کراچی میں ترقیاتی کاموں کے لیے جو وفاق فنڈ دے وہ ایم کیو ایم کے بجائے پیپلزپارٹی کو دیے جائیں۔ سندھ میں گورنر پیپلزپارٹی کا ہو، پنجاب کی گورنر شپ سے پیپلزپارٹی پیچھے ہٹ گئی ہے البتہ صدر مملکت کے عہدے سے پیپلزپارٹی پیچھے نہیں ہٹ رہی۔ قومی اسمبلی کا اسپیکر اگر پیپلزپارٹی سے ہو تو ڈپٹی اسپیکر ن لیگ سے ہوگا۔ اسطرح چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے عہدوں پر بھی یہی فارمولا بنتا نظر آرہا ہے۔ صدر مملکت کا عہدہ سمیت تمام مطالبات پیپلزپارٹی کے مانے نہیں جاسکتے۔
نوازشریف صدر کے امیدوار ہوسکتے ہیں؟
ن لیگ رہنما نے بتایا کہ آصف علی زرداری کو بطور صدر کے امیدوار نہ صرف نواز شریف ابھی تک نہیں مان رہے بلکہ مریم نواز اور پارٹی کی سنئیر قیادت بھی اس حق میں نہیں لیکن اس پر بات چیت چل رہی ہے۔ وی نیوز نے سوال کیا کہ نواز شریف بھی ن لیگ کی طرف سے صدر کے امیدوار ہوسکتے ہیں تو اس پر انکا جواب تھا کہ ابھی تک پارٹی کے اندر نواز شریف کو لیکر کوئی مشاورت نہیں کی گئی ہاں البتہ وہ بطور صدر پاکستان آتے ہیں تو یہ ایک اچھا انتخاب ہوگا لیکن پیپلزپارٹی اس پر مانے گی نہیں اور نواز شریف نے بھی کوئی ایسا اظہار نہیں کیا مگر ن لیگ چاہتی ہے کہ صدر مملکت کا عہدہ ن لیگ کے پاس ہونا چاہئیے۔
ن لیگ کی طرف سے کون اس عہدے کا امیدوار ہے کوئی نام بھی ابھی تک سامنے نہیں آیا، حکومت بنانے کے لیے 21 دن درکار ہوتے ہیں ابھی کافی دن پڑے ہیں پاکستان کے لیے اچھی خبریں ہوں گی، ہمیں امید ہے کہ دونوں جماعتیں کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کو اس بحران سے نکال لیں گی۔