بلوچستان: طویل احتجاجوں میں سے ایک تاجر اتحاد دھرنا 5ویں ماہ میں داخل

بدھ 21 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاک افغان سرحدی شہر چمن میں گزشتہ برس 21 اکتوبر سے آل پارٹیز تاجر لغڑی اتحاد کی جانب سے دیے جانے والا احتجاجی دھرنا 5ویں ماہ میں داخل ہوچکا ہے۔

ہزاروں کی تعداد مظاہرین چمن سرحد کے قریب زیرو پوائنٹ پر اپنے مطالبات کے حق میں سراپا احتجاج ہیں۔ دھرنے کے باعث چمن اور اس کے ملحقہ علاقوں میں معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوئے ہیں جبکہ کاروباری سرگرمیاں بھی ماند پڑچکی ہیں۔

وی نیوز سے بات کرتے ہوئے احتجاجی دھرنے کے ترجمان اولس خان نے کہا کہ حکومت کی جانب سے پاک افغان سرحد پر ون ڈاکیومنٹ رجیم کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کے تحت پاک افغان سرحد پر آمدورفت کے لیے پاسپورٹ ہونا لازم قرار دیا گیا جس پر ڈیورنڈ لائن کے قریب علاقہ مکینوں نے احتجاج کا سلسلہ شروع کیا۔

انہوں نے کہا کہ بعد ازاں مختلف سیاسی جماعتوں، ٹریڈ یونینز، تاجر برادری سمیت علاقہ مکین بھی اس احتجاج کا حصہ بنے اور مظاہرین 2 نکاتی ایجنڈے پر سراپا احتجاج ہیں جس میں پہلا یہ کہ ماضی کی طرح چمن اور اسپن بولدک کے باسیوں کو شناختی دستاویزات پر دو طرفہ آمدورفت کی اجازت دی جائے اور دوسرا اہم مطالبہ یہ ہے کہ سرحدی تجارت کو ماضی کی طرح رکھا جائے۔

اولس خان نے بتایا کہ چمن میں نہ تو صنعت موجود ہے اور ہی  روزگار کے دیگر مواقع، یہاں بسنے والے افراد کا زریعہ معاش زمینداری اور سرحدی تجارت پر محیط ہے اس کے علاوہ چمن اور اسپن بولدک کے رہاشی آپس میں رشتہ دار ہیں تاہم جب سے پاسپورٹ کی شرط کو لازم قرار دیا ہے تب سے علاقہ مکیوں کے لیے مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم گزشتہ 4 ماہ سے اپنی زمینوں پر نہیں جاسکے جبکہ پاسپورٹ کا نظام رائج کرنے سے بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ انہون نے مزید کہا کہ اگر ہم آئے روز ویزا لگواتے رہیں گے تو یہ ہمارے لیے ایسا ہو جائے گا جیسے کوئی شخص اپنے گھر سے بازار جانے کے لیے ویزا لگوائے۔

اولس خان نے مزید کہا کہ مشرف دور میں حکومت اور چمن کے باسیوں کے درمیان یہ معاہدہ ہوا تھا کہ آمدورفت ایک شناختی دستاویز پر ہوگی اس کے علاوہ منشیات، انسانی اسمگلنگ اور ہتھیار لانے لے جانے پر پابندی ہو گی اس کے علاوہ تمام تر اشیا افغانستان سے پاکستان بآسانی لائی اور لے جائی جا سکیں گی تاہم اب صورتحال ویسی نہیں رہی اور کئی ماہ سے تجارتی سرگرمیاں معطل ہونے سے فاقوں کی نوبت آگئی ہے جبکہ لوگ خود سوزی پر مجبور ہو گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں اور ہم نے 5 رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی جس نے صوبے سمیت وفاق پر مبنی کئی اعلیٰ شخصیات اور کمیٹیوں سے ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس دوران ہمیں کئی بار مسائل کے حل کی یقین دہانی کروائی گئی لیکن معاملات جون کے تون ہیں۔

اولس خان نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اہنا احتجاج مطالابت کے حل تک جاری رکھیں گے۔

دوسری جانب نگران وزیر برائے اطلاعات جان اچکزئی نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ روز مظاہرین کی جانب سے احتجاجاً بند کی گئی کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ کو بحال کردیا گیا ہے تاہم حکومت اپنی پاسپورٹ رجیم کی پالیسی پر قائم ہے۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق چمن کا دھرنا بلوچستان کی تاریخ کے طویل ترین دھرنوں میں سے ایک ہے اور مظاہرین اپنے مطالبات کے لیے سراپا احتجاج ہیں جبکہ حکومت بھی اپنی بات سے ہٹنے کو تیار نہیں ایسے میں پاک افغان سرحدی شہر چمن میں حالات آئندہ آنے والے دنوں میں مزید کشیدہ ہوں گے جس سے نہ صرف تجارتی حلقے متاثر ہوں گے بلکہ عوام کی مشکلات میں بھی مزید اضافہ ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp