غزہ جنگ بندی معاہدہ آئندہ ہفتے تک ہونے کی امید ہے، بائیڈن

منگل 27 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

امریکی صدر جو بائیڈن نے امید کا اظہار کیا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ اگلے ہفتے کے اوائل تک ہوسکتا ہے۔

نیو یارک میں این بی سی کے ’لیٹ نائٹ ود سیٹھ میئرز‘ ٹاک شو میں یہ پوچھے جانے پر کہ ان کے خیال میں جنگ بندی کب شروع ہو سکتی ہے تو بائیڈن نے کہا کہ مجھے قومی سلامتی کے مشیر نے بتایا کہ ہم کامیابی کے قریب ہیں، مجھے امید ہے کہ اگلے ہفتے تک جنگ بندی ہو جائے گی۔

بائیڈن نے مزید کہا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے بات چیت جاری ہے تاکہ غزہ میں یرغمال بنائے گئے افراد کی رہائی کو ممکن بنایا جاسکے۔ یرغمالیوں کے بدلے میں اسرائیل سے سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے کی تجویز ہے۔ جنگ بندی معاہدہ میں 6 ہفتے کے مجوزہ وقفے میں روزانہ سینکڑوں ٹرکوں کو غزہ میں اشد ضروری امدادی سامان پہنچانے کی اجازت دینا بھی شامل ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے گزشتہ روز کہا تھا کہ اسرائیل، غزہ کی پٹی میں جنگ سے متاثرہ لوگوں کو فوری طور پر درکار امداد فراہم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت کے حکم کی تعمیل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ مذاکرات کاروں کو 10 مارچ کے آس پاس ماہ رمضان کے آغاز سے قبل جنگ بندی معاہدہ تک پہنچنے کا چیلنج درپیش ہے کیونکہ رمضان المبارک میں اکثر اسرائیل فلسطین کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے۔

اسرائیل کا غزہ میں مستقل جنگ بندی کا کوئی ارادہ نہیں کیونکہ اسرائیلی وزیراعظم کے مطابق جنگ بندی معاہدے سے صرف رفح میں مجوزہ فوجی کارروائی میں کچھ تاخیر ہو سکتی ہے۔ دوسری جانب امریکا، مصر اور قطر کی طرف سے تیار کردہ تازہ ترین تجویز پر حماس کی جانب سے مثبت ردِ عمل سامنے آیا ہے۔

قطر کے ساتھ اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر رہے مصر کے ایک سینئر اہلکار نے کہا ہے کہ جنگ بندی کے مسودے میں 300 فلسطینی قیدیوں کے بدلے میں 40 خواتین اور معمر یرغمالیوں کی رہائی شامل ہے، ان میں زیادہ تر خواتین اور نابالغ ہیں۔

اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مذاکرات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ لڑائی میں 6 ہفتے کی مجوزہ جنگ بندی میں ہر روز سینکڑوں ٹرکوں کو غزہ میں اشد ضروری امداد پہنچانے کی اجازت دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ فریقین نے اس وقفے کے دوران مزید دو طرفہ رہائیوں اور مستقل جنگ بندی کے لیے بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔

حماس نے واضح کیا ہے کہ وہ باقی تمام یرغمالیوں کو اس وقت تک رہا نہیں کرے گا جب تک کہ اسرائیل اپنی جارحیت ختم نہیں کرتا اور اپنی فوجیں علاقے سے نہیں نکال لیتا اور سینئر عسکریت پسندوں سمیت سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہا نہیں کر دیتا، حالانکہ نتن یاہو حماس کی ان شرائط کو مسترد کرچکے ہیں۔

فلسطینی وزیراعظم حکومت سمیت مستعفی

فلسطینی وزیر اعظم محمد اشتیہ اور ان کی حکومت نے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے پیش نظر مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔ ’اے ایف پی‘ کے مطابق فلسطینی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ میں صدر محمود عباس کو اپنی حکومت کا استعفیٰ پیش کرتا ہوں، محمد اشتیہ نے بتایا کہ انہوں نے مقبوضہ مغربی کنارے میں بڑھتے ہوئے تشدد اور غزہ میں جنگ کے باعث مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ان کی حکومت اپنے لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے اور بنیادی ڈھانچے جیسی خدمات فراہم کرنے کے درمیان توازن حاصل کرنے میں کامیاب رہی اور وہ فلسطین کی سرزمین پر ایک ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ تاہم یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ صدر محمود عباس وزیر اعظم کا استعفیٰ فوری طور پر قبول کریں گے یا نئے وزیر اعظم کی تقرری تک انتظار کریں گے۔

واضح رہے کہ مغربی کنارے میں حکومت کا استعفیٰ اس وقت سامنے آیا ہے جب امریکا سمیت کئی ممالک نے ایک اصلاح شدہ فلسطینی اتھارٹی کا مطالبہ کیا ہے جو غزہ میں جنگ کے خاتمے کے بعد تمام فلسطینی علاقوں کا انتظام سنبھالے گی۔

دوسری جانب غزہ کی وزارت صحت کے مطابق غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں میں اب تک کم از کم 29 ہزار 782 افراد شہید ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق حماس کے حملے کے نتیجے میں 1 ہزار 160 کے قریب اسرائیلی ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر عام شہری شامل تھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp