احمد الغفیری اس وقت غزہ شہر سے تقریباً 50 میل دور مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر جیریکو (اریحا) میں تھے جب اسرائیلی فوج نے غزہ میں ایک گھر پر بمباری کرکے ان کے خاندان سمیت 103 رشتے داروں کو شہید کر دیا تھا۔
مزید پڑھیں
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق، 7 اکتوبر کو جب حماس اسرائیل جنگ شروع ہوئی، احمد اس وقت تل ابیب میں ایک کنسٹرکشن سائٹ پر کام کر رہے تھے اور راستے بند ہونے کی وجہ سے اپنے گھر نہیں جا سکے تھے۔
8 دسمبر کو ہوئے اس حملے میں ان کی اہلیہ اور 3 کم سن بیٹیاں بھی شہید ہو گئی تھیں۔ اس سے قبل، احمد روزانہ اپنی اہلیہ سے مخصوص اوقات میں فون پر بات کرتے تھے۔
کئی لاشیں اب بھی ملبے تلے دبی ہیں
احمد نے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا، ’میری اہلیہ کو معلوم تھا کہ وہ بھی زندہ نہیں بچیں گی، حملے کے روز جب ان سے فون پر بات ہوئی تو وہ کہہ رہی تھیں کہ مجھ سے کبھی کوئی غلطی ہوئی ہو تو مجھے معاف کر دینا۔‘
اس روز اسرائیلی فوج نے ان کے چچا کے گھر پر بمباری کی تھی جہاں احمد کے تقریباً تمام رشتہ دار موجود تھے۔ اس حملے میں احمد کی والدہ، 4 بھائی اور ان کے خاندانوں کے علاوہ احمد کے چچا، ماموں اور کزنوں سمیت 100 سے زیادہ رشتے دار شہید ہو گئے تھے۔
4 منزلہ اس عمارت کے مکمل طور پر تباہ ہونے کے نتیجے میں اب بھی ان کے کئی رشتے داروں کی لاشیں ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔
احمد اپنی بیٹیوں کا آخری دیدار بھی نہ کر سکا
گزشتہ ہفتے احمد نے اپنی سب سے چھوٹی بیٹی کی سالگرہ منائی، جو آج زندہ ہوتی تو 2 سال کی ہوچکی ہوتی۔ اس واقعہ کو 3 ماہ ہونے کو آئے ہیں اور احمد ابھی تک اپنے خاندان اور رشتہ داروں کو کھو دینے کے صدمے سے باہر نہیں آ سکے ہیں۔
احمد اس واقعہ میں شہید ہونے والی اپنی بیٹیوں کا آخری دیدار کرسکے نہ ہی ان کے جنازہ میں شریک ہوسکے۔ وہ ان کے بارے میں ایسے بات کرتے ہیں جیسے وہ اب بھی زندہ ہوں، تاہم ان کی آنکھیں اشکبار رہتی ہیں۔
احمد کا کہنا ہے، ’مجھے اپنی بیٹیاں بہت پیاری تھیں، مجھے لگتا ہے جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں، مجھے اب بھی یقین نہیں آتا کہ ہمارے ساتھ یہ سب کچھ ہوا۔‘
احمد نے اپنی بیٹیوں کی تصاویر اپنے فون اور لیپ ٹاپ کی اسکرین سے ہٹا دی ہیں تاکہ اسے بار بار ان کی یاد نہ ستا سکے۔
’اب کون بابا پکارے گا اور کون پیار سے میرا نام لے گا؟‘
احمد کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان نے اسرائیلی فوج پر اس حملے کا الزام عائد کیا اور ان سے اس بارے میں پوچھا تو جواب میں اسرائیلی فوج نے کہا کہ انہیں اس حملے کے بارے میں کوئی معلومات نہیں اور یہ کہ اسرائیلی فوج شہری آبادی کو نقصان سے بچانے کے لیے ’ہر ممکن احتیاطی تدابیر اختیار کرتی ہے‘۔
احمد اب بھی جیریکو میں ہیں اور کبھی کبھار اپنے خاندان کے افراد سے فون پر بات کرتے ہیں۔ وہ اپنے شہر اور اپنے گھر واپس جانے کے لیے بے چین ہیں لیکن وہ مکمل یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ کبھی دوبارہ وہاں جا سکیں گے یا نہیں۔
احمد کہتے ہیں، ’میرا خواب غزہ میں ٹوٹ چکا ہے، میں کس کے لیے واپس جاؤں، مجھے کون بابا پکارے گا اور کون پیار سے میرا نام لے گا، میری بیوی کہتی تھی کہ میں ہی اس کا سب کچھ ہوں، یہ بات اب مجھ سے کون کہے گا۔‘