اسرائیلی فوج میں جبری بھرتی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے الٹرا آرتھوڈوکس (قدامت پسند) یہودیوں کو صیہونی پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔
مزید پڑھیں
میڈیا رپورٹس کے مطابق، پیر کو جنوبی یروشلم میں روایتی کالے لباس میں ملبوس کٹر یہودیوں نے اسرائیلی سپریم کورٹ کے قریب مظاہرہ کیا اور ایک سڑک بند کر دی۔
پولیس نے احتجاج میں شریک مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا اور انہیں منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن کا بھی استعمال کیا۔
احتجاج میں شریک ایک شخص نے کہا، ’اسرائیل کی حکومت ہمیں اسرائیلی آرمی میں شمولیت کے لیے مجبور کر رہی ہے، جس کا مطلب ہے کہ حکومت نہیں چاہتی کہ ہم اپنے مذہبی عقیدے پر قائم رہیں۔‘
انہوں نے کہا، ’اس صورتحال میں ہم آرمی میں جانے کے بجائے مرنا پسند کریں گے۔‘
واضح رہے کہ اسرائیل میں 18 برس کے بعد تمام مرد اور خواتین کو ایک مخصوص وقت کے لیے فوج کے لیے خدمات سر انجام دینا ہوتی ہیں۔ مردوں کے لیے یہ مدت 2 برس 8 ماہ جبکہ خواتین کے لیے 2 برس ہے۔
کٹر یہودیوں کو پہلے لازمی فوجی سروس سے استثنا حاصل تھا جس کی مدت اگلے ماہ ختم ہو جائے گی۔ تاہم غزہ جنگ میں طوالت کے پیش نظر اسرائیلی فوج نے حکومت کو تجویز پیش کی ہے کہ کٹر یہودیوں کے لیے بھی فوج میں سروس کو یقینی بنایا جائے۔
ماضی میں لبرل اور سیکولر حلقوں کی طرف سے بھی زور دیا جاتا رہا ہے کہ ملک کی مڈل کلاس پر دباؤ کم کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ الٹرا آرتھوڈکس نوجوانوں کے لیے بھی فوجی سروس لازمی قرار دی جائے۔
اسرائیل کی کل 93 لاکھ کی مجموعی آبادی کا 10 فیصد الٹرا آرتھوڈوکس یہودیوں پر مشتمل ہے۔ جن میں سے بیشتر افراد کوئی کام نہیں کرتے اور اپنی مذہبی تعلیم اور اپنے کنبوں کی کفالت کے لیے سرکاری مراعات پر انحصار کرتے ہیں۔
قدامت پسند یہودیوں کا ماننا ہے کہ ان کی کمیونٹی کے لیے فوجی سروس کو لازمی بنانے سے ان کی معمول کی زندگی متاثر ہو جائے گی۔ ان کا خیال ہے کہ انہیں اپنا زیادہ تر وقت تورات پڑھتے ہوئے گزارنا چاہیے اور اگر نوجوان فوج میں چلے گئے تو وہ اپنی مذہبی روایات اور ذمہ داریوں کی جانب کبھی پلٹ کر نہیں دیکھیں گے۔