کیا غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پا جائے گا؟

جمعرات 29 فروری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

غزہ میں جنگ بندی کے لیے امریکا، مصر اور قطر کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔ گزشتہ ہفتے پیرس میں ہونے والی بات چیت پر اسرائیلی میڈیا نے ممکنہ طور پر حماس اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ طے پانے سے متعلق رپورٹس شائع کیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدے سے متعلق باتیں کی جا رہی ہیں مگر اس حوالے سے کسی قسم کی دستاویزات اب تک منظر عام پر نہیں آئیں۔

دوسری جانب امریکا کے صدر جوبائیڈن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان ممکنہ طور پر پیر کے روز معاہدہ طے پا جائے گا، جس سے اس معاہدے سے متعلق قیاس آرائیوں میں اضافہ ہوا ہے اور سب یہی جاننا چاہ رہے ہیں کہ یہ معاہدہ کس طرح کا ہوگا۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدے کی کیا شکل ہوگی؟

خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ معاہدہ طے پانے کے بعد 6 ہفتے کے لیے جنگ بندی ہوسکتی ہے اور اس دوران 40 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔ ان قیدیوں میں سویلین خواتین اور فوجی خواتین شامل ہوں گی۔ ان قیدیوں کے تبادلے میں 400 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جاسکتا ہے۔

معاہدے کے تحت غزہ کے زیادہ آبادی والے بعض علاقوں سے اسرائیلی فوج کا انخلا ہوسکتا ہے اور جنگ کے باعث بے گھر ہونے والے تقریباً 18 لاکھ فلسطینی شہری شمالی غزہ میں اپنے گھروں کو واپس جا سکیں گے۔

تاہم قطر میں رواں ہفتے شروع ہونے والے مذاکرات کے دور میں مصری اور قطری نمائندے حتی الامکان کوشش کر رہے ہیں کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدہ طے پا جائے، لیکن یہ بھی واضح نظر آ رہا ہے کہ بیشتر معاملات پر فریقین کے درمیان اب تک کچھ طے نہیں پایا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق، ایک اسرائیلی شہری کے بدلے ممکنہ طور پر رہا کیے جانے والے فلسطینی قیدیوں کی تعداد، اسرائیلی فوج کی غزہ میں دوبارہ تعیناتی اور فلسطینیوں کی اپنے گھروں کو واپسی کے معاملات پر مذاکرات اب بھی تعطل کا شکار ہیں۔

سابق موساد چیف ہائم تومر فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پرامید ہیں کہ معاہدہ جلد ہی طے پا جائے گا۔ انہوں نے کہا، ’میں اسرائیلی اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بارے میں کچھ یقین سے نہیں کہہ سکتا لیکن میرے خیال میں مذاکرات میں پیشرفت ہو رہی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ حماس کے رینما اسماعیل ہنیہ نے بدھ کے روز پہلی مرتبہ یہ اشارہ دیا ہے کہ حماس مذاکرات کو حتمی شکل دینے کے لیے نرمی کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔

’اگر ضروری ہوا تو لڑائی جاری رکھ سکتے ہیں‘

ٹی وی پر اپنے خطاب میں اسماعیل ہنیہ نے کہا تھا، ’ہم اپنے لوگوں کی زندگیوں کے تحفظ، ان کے دکھ درد کو ختم کرنے اور جانوں کا ضیاع روکنے کے لیے اپنا رویہ نرم کر رہے ہیں۔‘

اسماعیل ہنیہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ضروری ہوا تو حماس لڑائی جاری رکھنے کے لیے بھی تیار ہے۔ انہوں نے مغربی کنارے اور یروشلم میں موجود فلسطینیوں پر زور دیا تھا کہ وہ رمضان المبارک اسرائیلی پابندیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے مسجد اقصیٰ کی جانب مارچ کریں۔

حماس کی جانب سے قید کیے گئے اسرائیلیوں کے خاندان کے افراد یروشلم کی جانب مارچ کر رہے ہیں

حماس کی جانب سے اپنے رویے میں نرمی لانے کی بات اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ حماس جنگ کے مکمل خاتمے اور اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا کی خواہشمند ہے۔ تاہم اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو حماس کے اس مطالبے کو ایک ’غلط فہمی‘ قرار دے چکے ہیں۔

پیرس میں ہوئے مذاکرات میں پیش کردہ تجاویز پر حماس نے ابھی تک اپنی رائے کا اظہار نہیں کیا ہے۔ دوسری جانب، غزہ میں حماس کی گوریلا آرمی کے سربراہ یحییٰ سنوار کو ان مذاکرات کا علم ہے یا نہیں، اس بارے میں بھی اب تک کوئی اطلاعات نہیں ملی ہیں۔

حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے اسرائیلی شہریوں کے خاندان کے افراد نے بھی اسرائیلی حکومت پر دباؤ بڑھا دیا ہے اور ان کی رہائی کے لیے یروشلم کی جانب مارچ کا آغاز کر دیا ہے اور وہ ہفتے کے روز یروشلم پہنچ جائیں گے۔ تاہم یہ معاہدہ طے پائے گا یا نہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp