سابق نگراں وزیراعظم پاکستان انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ یہ تاثر درست نہیں کہ پاکستان کا وزیراعظم بے اختیار ہوتا ہے، اگر کوئی ایسا تاثر دیتا ہے تو یہ زیادتی ہوگی۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ وزیراعظم نگراں ہی کیوں نہ ہو وہ بے اختیار نہیں ہوتا، جب وزیراعظم بنا تو ایک طرف سے تجویز آئی تھی کہ فلاں شخص کو کابینہ کا حصہ بنا لیں لیکن میں نے انکار کردیا۔
مزید پڑھیں
انہوں نے کہاکہ ہمیں جہاں جہاں مشاورت درکا ہوتی تھی تو اداروں کی طرف سے اچھا مشورہ ملتا تھا، اس کے علاوہ اگر کسی پہلو کی طرف ہمارا دھیان نہیں ہوتا تھا تو بعض اداروں کی جانب سے اس کو سامنے لایا جاتا تھا۔
انوارالحق کاکڑ نے کہاکہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزامات ایک تسلسل ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں، ہمارے نظام میں کوتاہیاں ہیں، جو لوگ آج احتجاج کر رہے ہیں انہوں نے 2018 کے بعد سسٹم کو درست کرنے کے لیے قانون سازی کیوں نہیں کی۔
انہوں نے کہاکہ ہم نے شفاف انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کو تمام وسائل فراہم کیے تھے، انتخابات کا انعقاد نگراں حکومت کی نہیں الیکشن کمیشن کی ذمہ داری تھی۔
’ہمیں معاشی چیلنجز کے علاوہ بھی بہت سے مسائل کا سامنا ہے‘
سابق نگراں وزیراعظم نے کہاکہ ہمیں معاشی چیلنجز کے علاوہ بھی بہت سے مسائل کا سامنا ہے، ہم بسا اوقات ایک قوم کی صورت میں ابھر کر سامنے نہیں آتے۔
انہوں نے کہاکہ ہمیں خود کو مایوسی سے نکالنے کے لیے کوشش کرنا ہوگی، اور جب کوشش کریں گے تو راستہ خود بخود نکل آئے گا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ہماری بیوروکریسی میں بہت لائق لوگ موجود ہیں لیکن سسٹم میں خرابیاں ضرور ہیں۔ ’مستقبل میں پاکستان کے ذہین لوگ سول سروس کے بجائے پرائیویٹ سیکٹر کی طرف جا رہے ہیں‘۔
انوارالحق کاکڑ نے کہاکہ ہم کماتے نہیں ہیں اور اخراجات شاہانہ ہیں جس کی وجہ سے مسائل درپیش ہیں۔ ہمیں اپنے اخراجات کم کرنے کے ساتھ آمدن میں اضافہ کرنا ہوگا۔
سابق نگراں وزیراعظم نے کہاکہ ہم نے ایف بی آر میں اصلاحات متعارف کرائی ہیں، امید ہے نئی منتخب حکومت انہیں آگے لے کر چلے گی۔ جو طبقات ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں ان کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ جب وزیراعظم کے لیے میرے نام کا اعلان ہوا تو میں پنجاب ہاؤس جا رہا تھا۔ اس وقت اللہ سے دعا مانگی کہ اے اللہ تو نے عطا تو کر دیا ہے اب عزت کے ساتھ یہاں سے رخصت بھی کرنا، اور وہ دعا میری قبول ہوئی۔
’ماہ رنگ بلوچ کے قافلے پر لاٹھی چارج انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں نہیں آتا‘
انہوں نے کہاکہ لاپتا افراد کے حوالے سے کمیشن بنے ہوئے ہیں مگر وہاں پر شکایات درج نہیں کرائی جاتیں، ماہ رنگ بلوچ کے احتجاجی قافلے پر لاٹھی چارج اور واٹر کینن کا استعمال انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں۔
انہوں نے کہاکہ لاٹھی چارج اور واٹر کینن کا استعمال برطانیہ اور یورپ میں بھی ہوتا ہے جہاں انسانی حقوق کے حوالے سے بہت نقطہ چینیاں ہوتی ہیں۔
توشہ خانہ کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ہمارے حصے میں صرف کھجوریں اور حلوہ آیا جسے کھانے کی اجازت تھی، اس کے علاوہ کوئی خاص تحفہ نہ کسی نے دیا اور نہ ہی ہم نے وصول کیا۔