وفاق اور تمام صوبائی حکومتیں بنانے کے عمل تک تحریک انصاف انتخابات میں دھاندلی کے خلاف ملک گیر 3 احتجاج کر چکی ہے، پہلا احتجاج 17 فروری کو لاہور پریس کلب کے بجائے جیل روڑ پر کیا گیا، جس میں پی ٹی آئی رہنما اور معروف قانون دان سلمان اکرم راجہ کو پہلی مرتبہ گرفتار کیا گیا۔
اس احتجاج میں لاہور سے سینکڑوں کی تعداد میں لوگ باہر نکلے تاہم جب پولیس کی ڈنڈا برادر فورس نے پکڑ دھکڑ کا عمل شروع کیا تو پر امن احتجاج اس وقت ختم ہوگیا جب ریلی کی قیادت کرنے والے سلمان اکرم راجہ کو پولیس نے حراست میں لے لیا، تاہم انہیں کچھ دیر بعد رہا کر دیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں
دوسرا احتجاج 2 مارچ کو جی پی او چوک لاہور میں کیا گیا تھا جب مریم نواز کو وزیر اعلیٰ کا حلف اٹھائے چند روز ہی ہوئے تھے، اس موقع پر پی ٹی آئی کے حامی وکلاء نے روڑ بلاک کرکے مینڈیٹ چوری کے نعرے لگائے تو پولیس حرکت میں آ گئی اور کئی وکلاء کو گرفتار کیا گیا انہیں بھی کچھ دیر حراست میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا گیا۔
انتخابی دھاندلیوں کے خلاف تیسرا احتجاج 10 مارچ کو کیا گیا, جس میں قصور، شیخوپورہ اور لاہور سے کارکن احتجاج کے لیے جی پی او چوک پہنچے، اس موقع پرحافظ فرحت ایک بڑی ریلی کے ہمراہ پہنچے اور اسی طرح شاہدرہ سے پی ٹی آئی کے کارکنان بھی بڑی تعداد میں لاہور ہائی کورٹ کے باہر جمع ہوگئے۔
پی ٹی آئی رہنما سلمان اکرم راجہ اور لطیف کھوسہ ریلی کی قیادت کرتے ہوئے جی پی او چوک کی طرف روانہ ہی ہوئے تھے کہ انہیں گرفتار کر لیا گیا، پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر کے مطابق تقریبا 70 کے قریب کارکن ابھی تک گرفتار ہیں، جبکہ سلمان اکرام راجہ اور لطیف کھوسہ کو رات گئے تک رہا کر دیا گیا تھا۔
دوسری جانب حافظ فرحت عباس پر کارکنوں کو اکسانے پر پرچہ درج کیا گیا ہے، ایک پی ٹی آئی رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ انتخابی دھاندلیوں کے خلاف اب تک 3 ملک گیر احتجاج کیے جا چکے ہیں لیکن آخری احتجاج میں کارکنان کی بڑی تعداد نے شرکت کی تھی۔
’اس سے پہلے جو احتجاج ہوئے ان میں کارکن کی وہ تعداد نہیں تھی لیکن اس دفعہ کارکن بے خوف ہوکر گھروں سے نکلے ہیں، حکومت مخالف ریلیاں اور احتجاج کا سلسلہ اب تھمے گا نہیں بلکہ اس میں اضافہ ہوگا، ہمارے کارکنوں کو پکڑا جارہا ہے، اب تو حکومتیں بھی ن لیگ کی بن گئی ہیں لیکن ظلم کے بادل چھٹ نہیں رہے۔‘
انہی رہنما کے مطابق ان کی جماعت کو ملنے والا عوامی مینڈیٹ چوری ہوا ہے جو ان کی جماعت واپس لے کر رہے گی۔ ’اب کارکنوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا، پولیس کے سخت پہرے میں ہمارے کارکن نکلے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ عوام کے اندر پنجاب پولیس کا ڈر ختم ہو گیا ہے۔‘
مریم نواز کی سخت پالیسی کس حد تک کامیاب رہی ؟
کچھ روز قبل ایک پریس کانفرنس میں جب وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز سے پی ٹی آئی کے ملک گیر احتجاج کی بابت دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا تھا کہ اگر امن و امان کی صورتحال خراب کی گئی تو وہ ’بے رحم‘ ہو جائیں گی۔
وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کے بعد مریم نواز نے اس دن پنجاب اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کسی کو انتقام کارروائی کا نشانہ بنانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتیں۔’میرے دروازے جیسے اپنی جماعت کے لیے کھلے رہیں گے ویسے ہی اپوزیشن کے لیے بھی کھلے رہیں گے۔‘
پی ٹی آئی رہنما نے بتایا کہ مریم نواز کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد پاکستان تحریک انصاف انتخابی دھاندلیوں کے خلاف 2 دفعہ لاہور میں احتجاج کر چکی ہے اور دونوں دفعہ پی ٹی آئی کے رہنما، ایم این ایز، ایم پی ایز اور کارکنوں کو نہ صرف گرفتار کیا گیا بلکہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔
’اگر وہ احتجاج کرنے والوں کیخلاف بے رحم ہیں تو احتجاج کرنیوالے بھی بے رحم ثابت ہوں گے، وہ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی لائن لے کر آگے بڑھ رہی ہیں، احتجاج ہمارا آئینی حق ہے اور ہمارے پر امن احتجاج پر وزیر اعلیٰ کے حکم پر پنجاب پولیس نہتے شہریوں پر تشدد کر رہی ہے۔‘
پی ٹی آئی رہنما کے مطابق یہ پالیسی زیادہ دیر نہیں چل سکتی، پچھلے 2 سال سے تحریک انصاف کے ساتھ یہی ہو رہا ہے لیکن ہم پھر بھی اپنی آزاد ی کے لیے ڈٹ کر کھڑے ہیں۔
’مریم نواز کی ’سفاک پالیسی‘ احتجاج ختم کروانے کی حد تک کامیاب ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی دلوں میں نفرت کا بیج بونے میں بھی کامیاب ہوگئی ہیں، مار دھاڑ سے احتجاج کرنے منتشر تو جاتے ہیں لیکن پھر وہ میدان میں ایک نئے جذبے سے آتے ہیں۔‘
پر امن احتجاج پر حکومتی پالیسی بڑی واضح ہے ؟
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے حکومتی ذرائع نے بتایا کہ سیاسی احتجاج کے ضمن میں حکومتی پالیسی بڑی واضع ہے کہ کسی کو امن وامان خراب کرنے کی اجازات نہیں دی جائے گی۔
’پی ٹی آئی ایک انتشار پرور جماعت ہے، اگر وہ اپنا رویہ نہیں بدلیں گے تو حکومت بھی اپنا رویہ نہیں بدلے گی، سڑکیں بلاک کرکے احتجاج کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دیں گے، چند لوگ کروڑوں لوگوں کا جینا محال کر دیں یہ اس حکومت میں نہیں ہو سکتا۔‘