گزشتہ روز وفاقی کابینہ نے حلف اٹھایا تو وزارت خارجہ کا قرعہ سینیڑ اسحاق ڈار کے نام نکلا۔ اسحاق ڈار نے ایک طویل عرصے تک بطور وفاقی وزیر خزانہ فرائض سر انجام دیے ہیں اور اب ان کی بطور وزیر خارجہ تقرری کیا اہمیت رکھتی ہے اور کیا پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں سیکیورٹی الائنسز سے نکل کر اقتصادی الائنسز کا حصہ بننے جا رہا ہے اور موجودہ حکومت کے لیے خارجہ پالیسی کے چیلنجز کیا ہیں، اس پر ہم نے خارجہ امور کے ماہرین سے بات کی ہے۔
پاکستان کا سیکیورٹی الائنسز سے نکل کر اقتصادی الائنسز کی جانب بڑھنا خوش آئند ہے، ڈاکٹر ماریہ سلطان
ساؤتھ ایشین اسٹریٹجک اسٹیبلیٹی انسٹیٹیوٹ کی چیئرپرسن اور ماہر خارجہ امور ڈاکٹر ماریہ سلطان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ برسوں میں سکیورٹی کی بنیاد پر ملکوں کے درمیان اتحاد بنا کرتے تھے جبکہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اقتصادی بنیادوں پر اتحاد بن رہے ہیں۔
ماریہ سلطان نےکہا کہ موجودہ حکومت میں اسحاق ڈار کو وزارت خارجہ کا قلمدان دیا گیا ہے جو کہ ایک واضح اشارہ ہے کہ اب خارجہ پالیسی میں اقتصادی پالیسیوں کو ترجیح دی جائے گی۔
مزید پڑھیں
ان کا کہنا تھا کہ چین، روس اور دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرنا اس وقت پاکستان کی ضرورت ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا بھر میں اس وقت ملکوں کے درمیان الائنسز سکیورٹی کی بجائے اقتصادی مفادات کی بنیاد پر بن رہے ہیں اور پاکستان بھی اب اپنی خارجہ پالیسی اقتصادی ترجیحات کی بنیاد پر طے کرے گا جو کہ خوش آئند امر ہے۔
وزرا کی تبدیلی مجموعی پالیسی پر بہت محدود اثرات مرتب کرتی ہے، علی سرور نقوی
سابق سفارتکار اور سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹجک اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر علی سرور نقوی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل سرتاج عزیز طویل عرصے تک وزیر خزانہ رہے لیکن پھر آخر میں وزیر خارجہ بن گئے تھے اسی طرح سے اسحاق ڈار بھی وزارت خزانہ کے بعد وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالیں گے۔
وزرا کی تبدیلی سے پالیسی پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا بلکہ ایک محدود پیمانے پر ترجیحات کے حوالے سے شاید تھوڑا بہت اثر پڑسکتا ہے لیکن مجموعی طور پر پالیسی وہی رہتی ہے۔
علی سرور نقوی نے کہا کہ جیو اکنامکس کی باتیں کافی عرصے سے چل رہی ہیں لیکن پاکستان کو نہ صرف اپنے ہمسایہ ممالک بلکہ دنیا کے دیگر بڑے ملکوں سے بھی تجارتی اور خارجہ روابط استوار کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان اور بھارت تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے علی سرور نقوی نے کہا کہ اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات ٹھیک ہونے کا امکان کافی کم ہے کیونکہ بھارت میں مئی جون میں انتخابات ہو رہے ہیں جن کے بعد وہاں حکومت کی جو صورت بنے گی وہی پاکستان کے ساتھ مذاکرات کر پائے گی۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ امکان تو یہی کہ مودی حکومت ہی دوبارہ اقتدار سنبھالے گی۔
اسحاق ڈار کے تقرر سے اقتصادی سفارت کاری میں کافی مدد مل سکتی ہے، مسعود خالد
پاکستان کے سابق سفارتکار مسعود خالد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اقتصادی سفارت کاری ویسے بھی ہمارا ہدف ہے اور نیشنل سیکیورٹی پالیسی میں بھی جیو اکنامکس کو بڑھانے کی بات کی گئی ہے اور اس کے بعد خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا قیام بھی جیو اکنامکس کو بڑھانے کے لیے کیا گیا ہے۔
مسعود خالد نے کہا کہ اسحاق ڈار ایک بہت تجربہ کار آدمی ہیں اور بین الاقوامی سطح پر ان کے ذاتی تعلقات بھی ہیں اور اس کے علاوہ گزشتہ طویل عرصے سے وزارت خزانہ کی سربراہی کرتے ہوئے وہ پالیسی ساز امور میں بھی شامل رہے ہیں اس لیے ان کا بطور وزیر خارجہ انتخاب، اقتصادی پالیسی کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں کہ آیا پاکستان کی خارجہ پالیسی اب سیکیورٹی نقطہ نظر کی بجائے اقتصادی نقطہ نظر کے تابع ہو گی، مسعود خالد نے کہا کہ دنیا میں بڑی تبدیلی آ گئی ہے اب وہ سرد جنگ کا زمانہ نہیں جس میں ملکوں کو سیکیورٹی الائنسز بنانے پڑتے تھے، اب اقتصادی الائنسز یا زیادہ بہتر لفظوں میں اقتصادی شراکت داریوں کی بنیاد رکھی جاری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ خواہ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ ہو یا برکس یا ایس سی او تنظمیں، یہ ملکوں کے درمیان اقتصادی شراکت داری بڑھانے کے لیے کام کر رہی ہیں۔