سینیٹ کو پارلیمنٹ کا ایوان بالا (اپر ہا ؤس) کہا جاتا ہے، قومی اسمبلی کا منظور کردہ کوئی بھی قانون یا بل سینیٹ سے منظور ہونے کے بعد نافذ العمل ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے سینیئر رہنماؤں کو سینیٹ کے ذریعے ایوان میں لاتی ہیں، سینیٹ کو قومی اسمبلی سے زیادہ موثر جبکہ اس میں ہونے والی بحث اور تقاریر کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ہر جماعت کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے پڑھے لکھے، تجربہ کار، آئین و قانون کو سمجھنے والے رہنما سینیٹر منتخب ہوں۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیئر رہنما و سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی، مولا بخش چانڈیو، بہرامند تنگی، ن لیگ کے ڈاکٹر آصف کرمانی، مشاہد حسین سید، پی ٹی آئی رہنما ولید اقبال (علامہ اقبال کے پوتے)، قائد حزب اختلاف ڈاکٹر وسیم سجاد کو ان کی پارٹی نے ٹکٹ جاری نہیں کیے اس لیے وہ سینیٹر منتخب نہیں ہو سکیں گے۔
مزید پڑھیں
اس کے علاوہ جماعت اسلامی کے مشتاق احمد بھی سینیٹر منتخب نہیں ہو سکیں گے، جبکہ حال ہی میں چیئرمین سینیٹ رہنے والے صادق سنجرانی رکن بلوچستان اسمبلی، سینیٹر سرفراز بگٹی وزیر اعلیٰ بلوچستان منتخب ہونے کے باعث اب ایوان بالا کا حصہ نہیں ہوں گے۔
ماضی میں سینیٹ میں ارکان کی کل تعداد 104 تھی تاہم اب فاٹا کے انضمام کے بعد 4 نشستیں کم ہو گئی ہیں اور کل نشستوں کی تعداد 100 ہو گئی ہے۔ سینیٹ میں چاروں صوبائی اسمبلیوں کی برابر نمائندگی ہوتی ہے۔
11 مارچ 2024 کو سینیٹ کے 52 ارکان اپنی 6 سالہ مدت پوری کر کے ریٹائر ہو گئے ہیں، اب 48 نئے سینیٹرز کا انتخاب 2 اپریل کو ہونا ہے، جس میں قومی اسمبلی سمیت چاروں صوبائی اسمبلیاں اپنے کوٹے کے سینیٹر منتخب کریں گی۔ کچھ سینیٹر تو ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا نام کسی جماعت کے ساتھ پکا جڑا ہوتا ہے کہ یہی اس جماعت کے سینیٹر رہیں گے۔
سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی ربانی ٹکٹ سے محروم
سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے رہنماؤں کو سینیٹ کے ٹکٹ دے دیے ہیں، تاہم حیران کن طور پر پاکستان پیپلز پارٹی نے سینیٹر رضا ربانی کو ٹکٹ جاری نہیں کیا، رضا ربانی اس مرتبہ سینیٹ کا حصہ نہیں ہوں گے، اسی طرح پیپلز پارٹی نے مولا بخش چانڈیو، رخسانہ زبیری اور بہرامند تنگی کو بھی ٹکٹ جاری نہیں کیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے تجربہ کار سینیٹرز کی جگہ نئے چہروں کو میدان میں اتارا ہے، اس مرتبہ سرفراز اجڑ، کاظم شاہ، ندیم بھٹو، دوست علی جیسر، اشرف جتوئی اور مسرور احسن کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔
آصف کرمانی اور مشاہد حسین سید بھی ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکام
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما آصف کرمانی، مشاہد حسین سید اور حافظ عبد الکریم بھی 11 مارچ کو ریٹائر ہو چکے ہیں، کہا جا رہا تھا کہ ان دونوں رہنماؤں کو ایک مرتبہ پھر سے سینیٹ کا ٹکٹ دیا جائے گا، عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے ٹکٹ کی دوڑ میں شامل رہنماؤں طلال چوہدری اور ناصر بٹ کو اس وقت قومی اسمبلی کا ٹکٹ تو نہ دیا گیا لیکن اب پارٹی کی جانب سے ان امیدواروں کو سینیٹ کا ٹکٹ دے دیا گیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے بھی 7 سینیٹرز 11 مارچ کو ریٹائر ہو چکے ہیں، تاہم مخصوص نشستیں حاصل نہ ہونے کے باعث اب پی ٹی آئی سینیٹرز کی تعداد ایوان میں کم ہو گی، اس کے باوجود پی ٹی آئی نے پہلے قائد ایوان اور حال ہی میں اپوزیشن لیڈر رہنے والے ڈاکٹر وسیم سجاد اور علامہ اقبال کے پوتے سینیٹر ولید اقبال کو بھی ٹکٹ جاری نہیں کیا۔