تین الگ الگ مواقع پر امریکا کی جانب سے جنگ زدہ غزہ میں جنگ بندی کی غرض سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو ناکام بنانے کے لیے اپنے ویٹو پاور کے استعمال کا سلسلہ گزشتہ روز اس وقت ختم ہوگیا جب صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے جنگ بندی کی تازہ ترین قرارداد کو ویٹو نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
سلامتی کونسل میں امریکا نے جنگ بندی کی اس حالیہ قرارداد کو ویٹو کرنے کے بجائے ووٹ سے پرہیز کرتے ہوئے اسے منظور ہونے کی اجازت دی، اس امریکی اقدام نے صدر جو بائیڈن کی اسرائیلی قیادت کے ساتھ، جو غزہ میں اپنی مہلک فوجی مہم کو جاری رکھے ہوئے ہے، بڑھتی ہوئی مایوسی کی علامت کے طور پر بڑے پیمانے پر توجہ حاصل کی ہے۔
مزید پڑھیں
لیکن فلسطینی حقوق کے حامیوں کا موقف ہے کہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ علامتی اور بیان بازی سے بالاتر ہو کر اسرائیل کے لیے واشنگٹن کی حمایت میں ایک بنیادی نظر ثانی کی ہے۔
سیاسی تجزیہ کار ایڈم شاپیرو کے مطابق یہ ایک شفٹ ہے، تاہم اس نے ہتھیاروں کی منتقلی کو روکا نہیں ہے، اور یہی وہ نکتہ ہے جو واقعی اہمیت کا حامل ہے۔ واشنگٹن نے مذکورہ قرارداد کو نسبتاً بے ضرر قرار دیتے ہوئے اسے غیر پابند قرارداد سے تعبیر کیا ہے، لیکن امریکی موقف میں اس نوعیت کی تبدیلی اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو آگ بگولہ کرنے کے لیے کافی تھی۔
قرارداد روکنے میں ناکامی پر امریکا کو نشانہ بناتے ہوئے ان کے دفتر نے ایک بیان جاری کیا جس میں واشنگٹن پر اسرائیل کی جنگی کوششوں کو نقصان پہنچانے کا الزام لگایا گیا، اس بیان سے صدر بائیڈن کے ساتھ اسرائیل کی بڑھتی ہوئی کشیدگی نمایاں تھی۔
رہنماؤں کے درمیان ‘ایک رقص‘
جنگ مخالف انسانی حقوق کے علمبرداروں کے مطابق اب سوال یہ ہے کہ کیا بائیڈن انتظامیہ غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف ہونے والی زیادتیوں کو ختم کرنے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے اپنا وزن استعمال کرے گی یا نہیں۔
صدر جو بائیڈن کے عہدیداروں نے اسرائیلی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ شہریوں کی حفاظت کرے اور غزہ کو مزید امداد کی اجازت دے، لیکن انہوں نے اب تک ان مقاصد کے حصول کے لیے اسرائیل کو دی جانے والی امداد سے مشروط کرنے سے انکار کیا ہے۔
فلسطینی تھنک ٹینک الشباکہ میں امریکی پالیسی فیلو طارق کینی شاوا کا کہنا ہے کہ امریکا کہاں کھڑا ہے اس کا اصل اندازہ اس وقت ہوگا جب وہ اسرائیل کو اس کی خواہش کے مطابق ہتھیاروں کی فراہمی کے ضمن میں کیا فیصلہ کرتا ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ اس وقت واشنگٹن ڈی سی کے دورے پر ہیں اور امریکی اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی ہے کہ وہ جاری جنگ کے لیے مخصوص ہتھیاروں کی درخواست کریں گے۔
الجزیرہ کو آن لائن انٹرویو میں طارق کینی-شاوا نے بتایا کہ اسرائیل اور نیتن یاہو کو خاص طور پر غزہ پر حملہ جاری رکھنے کے لیے ضروری تمام آلات فراہم کرنے کی پالیسی اکتوبر سے بلا تعطل جاری ہے، وہ اسے بہت سے حوالوں سے ایک رقص کے طور پر دیکھتے ہیں۔
’بائیڈن انتظامیہ جو کچھ کررہی ہے وہ اسے ضروری عوامی اقدامات کے طور پر دیکھتی ہے تاکہ نظر آئے کہ وہ اسرائیل پر اپنا دباؤ بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، جب کہ حقیقتاً وہ اسرائیل کو سہولت فراہم کر رہے ہیں اور اس کو فعال کر رہے ہیں، اسرائیل کو ابھی تک اپنے جنگی جرائم اور نسل کشی پر امریکا کی جانب سے کسی ٹھوس رد عمل کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔‘
جنگ 7 اکتوبر کو شروع ہوئی، جب جنوبی اسرائیل پر حملے میں 1,139 افراد ہلاک ہوئے، اس وقت سے اب تک غزہ پر اسرائیل کے فوجی حملے میں 32,000 سے زائد فلسطینی شہید اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں، اسرائیل کی جانب سے غزہ کی ناکہ بندی نے بھی اس علاقے کو قحط کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔
گزشتہ روز کی قرار داد، جسے کسی بھی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، 14 ووٹوں سے منظور کیا گیا، قرارداد میں دیرپا جنگ بندی کے ساتھ ساتھ غزہ میں اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور فلسطینی سرزمین پر انسانی امداد میں اضافے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے صحافیوں کو بتایا کہ ہمارا ووٹ ہماری پالیسی میں تبدیلی کی نمائندگی نہیں کرتا ہے۔ ’ہم بہت واضح ہیں، ہم یرغمالیوں کے معاہدے کے حصے کے طور پر جنگ بندی کی حمایت میں بہت مستقل مزاج رہے ہیں۔‘
’منہ پر تھپڑ‘
لیکن اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اسے اس طرح نہیں دیکھتے، ان کے مطابق سلامتی کونسل کی ووٹنگ میں امریکی عدم شرکت جنگ کے آغاز کے بعد سے سلامتی کونسل میں امریکا کے مستقل موقف سے واضح علیحدگی ہے، یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نیتن یاہو نے اسرائیلی وفد کا واشنگٹن ڈی سی کا دورہ منسوخ کر دیا، جس کا مقصد جنوبی غزہ کے پرہجوم شہر رفح پر اسرائیلی حملے کو روکنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔
اسرائیل نے پہلے ہی دھمکی دی تھی کہ اگر امریکا نے قرارداد کو ویٹو نہ کیا تو وہ یہ دورہ منسوخ کر دے گا جبکہ بائیڈن انتظامیہ اسرائیل پر زور دیتی رہی ہے کہ وہ رفح میں بڑے پیمانے پر حملے نہ کرے، کیونکہ ان حملوں سے شہر میں پھنسے شہریوں کو نقصان پہنچے گا اور اسرائیل کو عالمی سطح پر مزید تنہا کر دیا جائے گا۔
اس پس منظر میں، متعدد امریکی حکام نے جنگ پر قابو پانے کے لیے واشنگٹن کی کوششوں کی مثال کے طور پر وفد کے اب منسوخ کیے گئے دورے پر بات کی ہے، محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے نیتن یاہو کی جانب سے اس دورے کو ختم کرنے کے اقدام کو ’حیران کن اور بدقسمتی‘ قرار دیا۔
تجزیہ کار ایڈم شاپیرو نے الجزیرہ کو بتایا کہ یہ صدر جو بائیڈن کے منہ پر تھپڑ تھا، انہوں نے سوال اٹھایا کہ امریکا بطور ایک عالمی سپر پاور اسرائیل کے ساتھ اپنی ترجیحات کو آگے بڑھانے میں کیوں ناکام ہو رہا ہے، جو کہ امریکی امداد پر منحصر ایک بہت چھوٹا اتحادی ہے۔
’موجودہ تناظر میں کہ جب اسرائیل غزہ یا پھر مجموعی طور پر مقبوضہ علاقے میں جو کچھ کر رہا ہے، اس وقت امریکا اپنے پالیسی مقاصد کو حاصل کرنے میں اپنی مکمل ناکامی کے مطابق رد عمل ظاہر نہیں کر رہا ہے۔‘
امریکہ میں قائم تھنک ٹینک سینٹر فار انٹرنیشنل پالیسی کی صدر نینسی اوکیل نے کہا کہ یہ پہلی بار ہے کہ نیتن یاہو نے کھل کر امریکی مطالبات کی خلاف ورزی کی ہے، مثال کے طور پر گزشتہ ہفتے اسرائیل نے امریکی پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ مغربی کنارے میں 1,977 ایکڑ رقبے پر غیر قانونی قبضے کا اعلان کیا ہے۔