کیا پاکستان واخان پر قبضہ کرے گا؟

جمعرات 28 مارچ 2024
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جان اچکزئی سابق صحافی ہیں۔ یہ بی بی سی جیسے ادارے سے منسلک رہے ہیں۔ کافی عرصہ مولانا فضل الرحمٰن کی جے یو آئی کے ترجمان بھی رہے ہیں۔ یہ نگراں حکومت میں وزیر اطلاعات تھے۔ 20 مارچ کو یہ ایک ٹوئٹ کرتے ہیں کہ ‘اگر پاکستان میں ایک اور دہشتگرد حملہ ہوتا ہے، طالبان کو پہلے ہی خبردار کیا جا چکا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں پاکستان تیزی سے افغانستان میں داخل ہوگا اور واخان راہداری پر قبضہ کرکے وسطی ایشیا سے براہِ راست منسلک ہوگا’۔

آپ جان اچکزئی کے یہ سارے حوالے دیکھیں، پھر سوچیں کہ کیا اس پس منظر کے بندے کو نہیں معلوم کہ وہ کیا کہہ رہا ہے؟ کیوں کہہ رہا ہے؟ اس کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں اور اس کا کیا مطلب ہے؟۔ اس ٹوئٹ سے 2 روز قبل پاکستان افغانستان میں دہشتگردوں کے منتخب ٹھکانوں پر ایئر سٹرائک کرچکا تھا۔

جس دن جان اچکزئی یہ وارننگ دیتے ہیں۔ اس دن 20 مارچ کو ہی  گوادر پورٹ کمپلیکس پر بی ایل اے نے حملہ کیا۔ 25 مارچ کو پی این ایس صدیقی پر تربت میں بی ایل اے کے ہی مجید بریگیڈ نے دوسرا حملہ کیا۔ 26 مارچ کو 5 چینی انجینیئرز جو داسو ڈیم پر کام کرتے تھے ایک خود کش دھماکے میں مارے گئے۔ ایک ہفتے میں پاکستان کے اندر 3 چینی انٹرسٹ ٹارگٹ ہوتی ہیں۔ بی ایل اے اپنے دونوں حملوں میں عسکریت پسند تنظیموں کے تعاون کا شکریہ بھی ادا کرتی پائی جاتی ہے۔ ہر طرح کے عسکریت پسند آپس میں تعاون کررہے ہیں، چاہے ان کی تحریک نسلی بنیاد پر ہو یا مذہبی شدت پسند ہوں، آپس میں کو آرڈینیشن موجود ہے۔

سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت واخان کاریڈور کے ذریعے چین کے ساتھ براہِ راست روڈ نیٹ ورک بنانا چاہتی ہے جبکہ پاکستان کی انٹرسٹ یہ ہے کہ واخان کو ایک جنکشن بنایا جائے، جہاں سے تاجکستان، افغانستان، چین اور پاکستان ہر ملک ایک دوسرے سے منسلک ہو جائے۔ چینی انٹرسٹ پر پاکستان میں مسلسل حملوں کا ایک مطلب یہ بھی بنتا ہے کہ چینی پاکستان میں محفوظ نہیں ہیں۔ اگلا سوال یہ ہے کہ پاکستان میں محفوظ نہیں ہیں تو کیا افغانستان میں محفوظ ہوں گے۔ جہاں داعش اپنے گلوبل ایجنڈا کے ساتھ موجود ہے اور اس کی صفوں میں چینی عسکریت پسند بھی ہیں۔

افغانستان میں گلبدین حکمت یار سے ان کی رہائش گاہ جو ان کا دفتر بھی تھا خالی کرا لی گئی ہے۔ بتایا یہ گیا ہے کہ یہ رہائش گاہ وزارت دفاع کی زمین پر تھی۔ اشرف غنی کا گلبدین حکمت یار سے امن معاہدہ ہوا تھا۔ تب یہ جگہ معاہدے کے مطابق گلبدین حکمت یار کو فراہم کی گئی تھی۔ حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کبھی افغانستان کے طاقتور ترین عسکری کمانڈر تھے۔ گلبدین حکمت یار اور ان سے معاہدہ کرنے والے اشرف غنی دونوں کا تعلق غلزئی قبیلے سے ہے اور افغانستان میں غلزئی درانی ٹسل پرانی ہے۔

ملا عمر کا تعلق غلزئی کی ہوتک شاخ سے تھا۔ ملا ہیبت اللہ نورزئی درانی ہیں جبکہ ملا برادر پوپلزئی درانی ہیں۔ پوپلزئی درانیوں کی ایک بااثر شاخ ہے۔ گلبدین حکمت یار کو وزارت دفاع کی جس زمین سے بے دخل کیا گیا ہے وہ وزارت ملا یعقوب کے پاس ہے۔

اس سال 15 جنوری کو افغان وزیر داخلہ سراج حقانی کے بھائی انس حقانی نے گلبدین حکمت یار سے ملاقات کی تھی۔ ملاقات کی وجہ جو بھی ہو اس کا ایک دلچسپ پس منظر ہے۔ نعیم خان زدران سراج اور انس حقانی کے کزن تھے۔ یہ پراسرار حالات میں مارے گئے تھے۔ ان کے مارے جانے میں ایک کردار حافظ گل بہادر کا بھی بتایا جاتا ہے۔ گل بہادر وہ ہیں جن کے عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر پاکستان نے ایئر سٹرائک کیا۔

نعیم خان کی فیملی میں صرف بچے ہی زندہ رہے تھے۔ جو اب بڑے ہو چکے ہیں۔ یہ حزب اسلامی کا حصہ ہیں۔ نعیم خان کے یہ وارث اب اپنے بزرگ کے مارے جانے کا دعویٰ سراج حقانی پر کررہے ہیں۔

انس حقانی کی گلبدین حکمت یار سے ملاقات کو اسی تناظر میں دیکھیں۔ یہ گلبدین حکمت یار اب قندھاری طالبان کے غضب کا نشانہ بنتے ہوئے اپنی رہائش گاہ سے بے دخل ہوگئے ہیں۔ افغان طالبان گلبدین حکمت یار کے مسلسل رابطوں، طالبان کی پالیسیوں پر تنقید اور خواتین کی تعلیم پر اصرار سے عاجز آگئے تھے۔  آپ نے یہ سب پڑھ لیا پتا نہیں کیا سمجھے ہیں۔ آپ نے وہ نہیں سمجھنا جو اس تحریر میں لکھا گیا ہے۔ وہ سمجھیں جو نہیں کہا گیا۔ جس کے حوالے سے پوری معلومات لکھاری سمیت کسی کے پاس بھی نہیں ہیں۔ اندازہ ہوگیا ہوگا کہ افغانستان میں کیا چل رہا ہے۔ پاکستان کی حکومت کیسے کیسے مسائل کا شکار ہے۔ جان اچکزئی اس حد تک ٹھیک کہتے ہیں کہ پاکستان کو باہر رکھ کر کوئی بھی اپنے مزے صرف سوچ سکتا ہے کر نہیں سکتا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp