ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن کا قیام وقت کی ضرورت ہے، شوکت صدیقی

جمعہ 29 مارچ 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیزصدیقی نے کہا ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے عدالتی امور میں مداخلت کے بارے انکوائری کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا تھا لیکن بدقسمتی سے ایگزیکٹو کی طرف سے نہ ہی عدلیہ کی جانب سے اس معاملے پرکوئی قدم اٹھایا گیا۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے بھی اس معاملے کی انکوائری کرنا مناسب نہیں سمجھا۔

جمعہ کو ایک ٹی وی انٹرویو میں سابق جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ میرے مطالبے پر اس انکوائری میں ایسے ذمہ داران کے نام سامنے آ گئے تھے جو اس وقت عدلیہ اور فوج کی اعلیٰ قیادت ایک پیچ پر تھی اور مقاصد بھی ایک ہی تھے، یہ کام اس وقت ہو جاتا تو آج ہم ایسی صورت حال کا سامنا نہ کر رہے ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ آج 6 ججزکے دکھ اور درد کو سمجھتا ہوں، انہوں نے جو قدم اٹھایا ہے وہ خوش آئند ہے، یہ بھی خوش آئند بات ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے اس پر انتہائی سنجیدگی سے قدم اٹھایا ہے اور اسے فل کورٹس اجلاس میں رکھا ہے۔ ان معاملات پر انکوائری کمیشن کا قیام وقت کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ خوش آئند بات یہ ہے کہ پہلی مرتبہ ایسے معاملات پر کوئی انکوائری ہونے جا رہی ہے، اس کمیشن کے ٹی آر اوز ایک دو روز میں سامنے آجائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ میں مداخلت کرنے والوں کے خلاف اقدامات اسی صورت میں اٹھائے جا سکتے ہیں جب آپ ذمہ داران کا تعین کر کے ان پر الزام ثابت کریں اور ان کو قانون کے مطابق منطقی انجام تک پہنچائیں، جو لوگ 70 سال سے ان معاملات میں ملوث ہیں ان کی نشاندہی کر کے ان پر کوئی جرم ثابت کریں اور ان کو عبرت کا نشان بنائیں۔

فیض حمید اور بریگیڈیر عرفان کا نام دیا

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر آپ سے کوئی رابطہ کرتا ہے تو آپ کو اس کے نام کا تو پتا ہوتا ہے، میں نے فیض حمید اور بریگیڈیر عرفان کا نام دیا، ایسا بالکل نہیں ہے کہ غیر مرحی قوتیں اپنے وجود کے بغیر آ کر آپ سے کوئی بات کر جاتی ہیں، ایسی باتوں کے پیچھے کوئی تو ہوتا ہی ہے۔

کمروں میں کیمرے کون نصب کرتا ہے، تفتیش ہو گی تو کٹھ پتلی پکڑا جائے گا

مثال کے طور پر اگر آپ کے کمرے میں کیمرے لگے ہوئے ہیں تو اس کی انکوائری تو آسان ہے کہ کمیرے لگانے والوں سے پوچھا جائے کہ یہ کس کے حکم پر اور کیوں لگائے گئے۔ آخر میں آپ کسی کٹھ پتلی تک پہنچ ہی جائیں گے۔

جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی نے بتایا کہ ’ میں نے اپنے جوڈیشل آرڈرز میں 6 سے 8 مرتبہ اوبزرویشنز دے کر وہ آرڈر چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بجھوائے کہ آپ کے لوگ یہ کر رہے ہیں لیکن ان پر کچھ نہیں کیا گیا۔

ثاقب نثار نے میرے متعلق بھی کہنا تھا کہ ’ انیہوں وی مسنگ پرسنزوچ شامل کر دیو‘ ۔

انہوں نے کہا کہ میں اس وقت اس پوزیشن میں بھی نہیں تھا کہ میں اپنے آرڈرز پر توہین عدالت کا مقدمہ چلاتا کیوں کہ اوپر اس وقت چیف جسٹس ثاقب نثار بیھٹے ہوئے تھے، مجھے پتا تھا کہ انہوں نے میرے متعلق بھی یہی کہنا تھا کہ ’ انیہوں وی مسنگ پرسنزوچ شامل کر دیو‘ ۔

انہوں نے کہا کہ حمود الرحمان رپورٹ پر بھی کچھ نہیں ہوا، سپریم کورٹ کا یا کوئی بھی جج جب حلف اٹھاتا ہے تو اس کو اس بات کا پتا ہوتا ہے کہ اس نے انصاف کا نظام کیسے چلانا ہے، حلف اٹھاتے ہوئے جج یہی کہتا ہے کہ اس نے بغیر کسی خوف اور خطرے کے انصاف مہیا کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایگزیکٹو اور عدلیہ کی طرف سے جو بھی کمیشن قائم ہو گا اس کے پاس تمام تر اختیارات ہوں گے، ان کے پاس اتنے ہی اختیارات ہوں گے جتنے ایک حاضر سروس جج کے پاس ہوتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ان 6 ججز کو انکوائری کمیشن کے ہائیکورٹ کے ججز کے سامنے پیش ہونے میں کوئی حرج نہیں ہونی چاہیے کیوں کہ کمیشن کی صورت میں ان کے پاس بھی برابر کے اختیارات ہوں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp