پاکستان میں خود انحصاری کا رویہ عرصہ دراز سے ختم ہوچکا ہے، کم و بیش 77 برس پہلے پہلی بار یہ نظریہ کہ ’جو ملک میں نہیں باہر سے منگوا لو ‘ کے بجائے اس وقت اگر خود ہی بنانے کی ٹھان لی ہوتی تو حالات بہت تبدیل ہوتے۔ آج اگر ہمیں گاڑیوں کی ضرورت پڑتی ہے تو نظریں چین کی طرف ہوتی ہیں جو مہنگے داموں خریدنی پڑتی ہیں۔
شرح سود بلند ترین سطح پر ہونے کی وجہ سے انڈسٹری تباہ ہوچکی، مشہود علی خان
آٹوپارٹس بنانے والی کمپنی مہران کمرشل انٹرپرائز کے ڈائریکٹر ایکسپورٹ اور پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹوموٹیو پارٹس اینڈ انڈسٹری مینیوفیکچرر کے سابق چیئرمین مشہود علی خان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہم اگر گاڑیوں کی کیٹیگریز بنائیں تو ہمارے پاس 4 قسم کی انڈسٹریز ہیں، جن میں ٹریکٹر، بسیں و ٹرک، موٹر سائیکل وغیرہ اور کار انڈسٹری شامل ہے۔
مزید پڑھیں
مشہود علی خان کے مطابق ان تمام انڈسٹریز میں سب سے اچھی گروتھ ٹریکٹر انڈسٹری کی ہے، اس کے بعد موٹر سائیکل انڈسٹری ہے جو بہتر پرفارم کرتی دکھائی دے رہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ ٹرکوں اور بسوں کی یہ انڈسٹری خسارے سے دوچار ہے، اس کے بعد کار انڈسٹری آتی ہے مگر کاروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں، شرح سود تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہونے کے باعث یہ انڈسٹری بھی تباہ ہوچکی ہے۔
مشہود علی خان نے کہاکہ اب نئی حکومت آچکی، اور کابینہ کے قیام کے بعد سیاسی استحکام بھی آچکا ہے، اس لیے امید کی جا سکتی ہے کہ حکومت انڈسٹریز کے لیے نئی پالیسی متعارف کرائے گی۔ انکا کہنا ہے کہ اس ملک میں بسوں اور ٹرکوں کی ڈیمانڈ بری طرح متاثر ہوچکی ہے۔ انڈسٹری کے لیے کم از کم 10 سالہ پالیسی ناگزیر ہے۔
77 برس سے کون سے غلطی کی جارہی ہے؟
مشہود علی خان کہتے ہیں 76 یا 77 برسوں سے ہم ایک غلطی کرتے آ رہے ہیں مگر اس سے سبق نہیں سیکھا۔
انہوں نے کہاکہ ہماری سب سے بڑی غلطی یہ ہے جو چیز ملک میں نہیں باہر سے منگوا لی جاتی ہے، لیکن اب حالات یہ ہیں کہ ہمارے پاس زرمبادلہ ہی نہیں بچا۔
مشہود علی خان کہتے ہیں کہ جب آپ میں خریدنے کی سکت نہیں تو آپ نہ خریدیں، ہمارے وزرا کو مہنگی گاڑیاں چاہیئیں، ’اعلان کیا جاتا ہے کہ ہم تنخواہ نہیں لیں گے لیکن اگر دیکھا جائے تو تنخواہوں سے زیادہ تو ان کی مراعات ہیں ‘۔
ملک بھر میں 2500 الیکٹرک بسوں کی ضرورت
مشہود علی خان نے کہاکہ ملک بھر میں 2500 الیکٹرک بسوں کی ضرورت 3 صوبوں کو ہے، اگر انہی بسوں کا چین کی مدد سے یہاں پلانٹ لگا لیا جائے تو کیا مسئلہ ہے؟۔
انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف ہمیں انڈسٹری لگانے سے نہیں روکتا بلکہ اس کی دلچسپی تو یہ ہے کہ اس کی رقم واپس ملتی رہے، لیکن ہماری خود کی پالیسی کبھی اتنی متاثر کن نہیں رہی کہ ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔