نان کسٹم پیڈ گاڑیاں کن راستوں سے ملک میں لائی جاتی ہیں؟

جمعرات 4 اپریل 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ملکی معیشت کی ابتر صورتحال کے پیش نظر ہر گزرتے دن کے ساتھ حکومت درآمد کی جانے والی اشیاء پر اضافی ٹیکس عائد کرتی جا رہی ہے، بڑھتے ٹیکس کے باعث خوردنی اشیاء، الیکٹرانکس، خام تیل اور گاڑیوں سمیت کئی قابل ضرورت سامان عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ ایسی صورت میں ٹیکس چوری اور طلب کو پورا کرنے کے لیے سرحد سے غیر قانونی طور پر کچھ اشیاء کی اسمگلنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

ہمسایہ ملک ایران اور افغانستان کی سرحد سے بڑے پیمانے پر خام تیل، اشیاء خورونوش، الیکٹرانکس اور گاڑیاں غیر قانونی طریقے سے ملک میں لائی جا رہی ہیں، اسمگل ہونے والی اشیاء میں سرفہرست گاڑیاں ہیں۔ ملک کے 2 صوبے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اسمگل شدہ جاپانی گاڑیوں کا کاروبار ہر گزرتے دن کے ساتھ پروان چڑھ رہا ہے۔ دراصل مقامی زبان میں ان گاڑیوں کو کابلی گاڑی کہا جاتا ہے، جو افغانستان سے پاکستان چور راستوں سے لائی جاتی ہیں۔

کوئٹہ میں کابلی گاڑیوں کے کاروبار سے منسلک ڈیلر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر وی نیوز کو بتایا کہ جاپان سمیت مختلف ممالک سے پہلے یہ گاڑیاں دبئی پورٹ لائی جاتی ہیں جہاں ڈیلر ان گاڑیوں کو کنٹینر میں کچھ اس طرح لوڈ کرتے ہیں کہ کئی گاڑیوں کے 3 سے 4 حصے کیے جاتے ہیں کئی گاڑیوں کی چھتیں کاٹی جاتی ہیں جبکہ کئی ثابت طریقے سے کنٹینر میں لوڈ کی جاتی ہیں جو مختلف ذرائع سے افغانستان پہنچائی جاتی ہیں۔

کابلی گاڑی کے ڈیلر نے بتایا کہ ماضی میں جب پاک افغان سرحد پر باڑ نہیں لگائی گئی تھی تب یہ گاڑیاں توبہ اچکزئی اور چمن کے خفیہ پہاڑی راستوں سے پاکستان لائی جاتی تھیں اور پاک افغان سرحدی شہر چمن میں ایک بڑی مارکیٹ میں ان گاڑیوں کی خرید و فروخت کی جاتی تھی تاہم اب چمن سے منسلک سرحد پر باڑ لگ جانے کی وجہ سے یہ کابلی گاڑیاں اب نوشکی کے علاقے کرد جنگل کے چور راستوں سے پاکستان لائی جاتی ہیں اور کرد جنگل میں ان گاڑیوں کی بڑی مارکیٹ لگتی ہے۔

مقامی افراد جنہیں لغڑی کہا جاتا ہے وہ ضمانت پر ان گاڑیوں کو ایک مخصوص رقم کے عوض کوئٹہ پہنچاتے ہیں جہاں سے پھر ان گاڑیوں کو ملک کے دیگر حصوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ علاقہ سرحد سے جتنا دور ہوگا لغڑی اتنی ہی رقم وصول کرتا ہے۔

گزشتہ کئی برسوں سے کابلی گاڑی استعمال کرنے والے تیمور خان نے وی نیوز کو بتایا کہ ملک میں آئے روز گاڑیوں پر اضافی ٹیکسز عائد کیے جارہے ہیں جس کے سبب 650 سے لیکر 1000 سی سی گاڑیاں 25 سے 30 لاکھ روپے میں دستیاب ہوتی ہیں، وہیں یہ کابلی گاڑی 6 سے 7 لاکھ میں بآسانی مل جاتی ہے۔ ایسے میں 60 سے 70 فیصد کم قیمت پر جاپانی گاڑی میسر ہوتی ہے جو جیب پر ہلکی اور عام شہری کی ضرورت پوری کر دیتی ہے۔

تیمور خان نے بتایا کہ کابلی گاڑی چلاتے وقت ڈر تو رہتا ہے کہ کبھی بھی یہ گاڑی ضبط ہو سکتی ہے لیکن مجبوراً کابلی گاڑی چلانا پڑتی ہے کیونکہ کسی بھی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا شخص 25 سے 30 لاکھ کی گاڑی خریدنے کی سکت نہیں رکھتا ایسے میں یہ گاڑی انہیں سستی سواری مہیا کرتی ہے۔ اگر حکومت گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی لے آئے تو ہم کسٹم پیڈ گاڑیاں خریدیں گے۔

ایک اندازے کے مطابق بلوچستان کے مختلف اضلاع میں ہر 10 میں سے 2 گاڑیاں نان کسٹم پیڈ ہیں۔ یہ کابلی گاڑیاں جہاں ٹریفک میں اضافے کا باعث بنتی ہیں وہیں رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گردی کے مقاصد میں بھی استعمال ہوتی ہیں۔ ایسے میں حکومت کو کابلی گاڑیوں کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp