وہ افراد جن کے لیے عید بھی عام دنوں جیسی ہوتی ہے

بدھ 10 اپریل 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

خوشی کے تہواروں پر ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں اور عزیز و اقارب کے ساتھ مل کر عید کا لطف اٹھائیں۔

کچھ ایسے پیشے ہیں، جن کے لیے عید اور عام دنوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ کیونکہ انہیں عید پر بھی اپنی روزمرہ کی ڈیوٹی کو پورا کرنا ہوتا ہے ناکہ باقی تمام شعبوں کی طرح عید کی چھٹیوں کو بھرپور طریقے سے منانے کا موقع ملتا ہے۔

کون لوگ عید پر بھی ڈیوٹی کرتے ہیں؟

وہ ایسے پیشے جن میں عید پر چھٹیوں کا کوئی امکان نہیں ہوتا، ان میں پولیس اہلکار، نرسز، ڈاکٹرز، ریسٹورنٹس پر کام کرنے والے ویٹرز، صحافت سے وابستہ افراد، چوکیدار اور دیگر افراد شامل ہیں۔

ان شعبوں سے وابسطہ افراد ایسے تہواروں کے موقع پر دوسروں کی خوشیوں کے لیے اپنی خوشی قربان کر کے سٹرکوں اور عبادت گاہوں کے باہر ، تو کوئی اسپتال اور ریسٹورنٹس میں ڈیوٹی انجام دینے میں مصروف ہوتے ہیں۔

اسلام آباد میں سڑک کنارے دھوپ میں کھڑے ایک پولیس اہلکار نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں عید پر چھٹیاں نہیں ملتیں، البتہ عید پر ہونے والی چھٹیوں کو بعد میں ایڈجسٹ کر دیا جاتا ہے۔

عید کے بعد کی چھٹیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا

ان کا کہنا تھا کہ عید کے بعد کی چھٹیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ جب ہمیں چھٹیاں ہوتی ہیں تو بچوں کو نہیں ہوتیں۔ یوں عید پر ہونے والی چھٹیوں کا مزہ ہی الگ ہے لیکن ڈیوٹی بھی تو کرنی ہوتی ہے اور اب عادت بھی ہو گئی ہے۔

ان کا کہنا تھاکہ بعض اوقات سب کو دیکھ کر دل چاہتا ہے تو یہی سوچتا ہوں، ہم نہ سہی مگر ہماری وجہ سے باقی تمام لوگ تو کم از کم اپنے گھر والوں کے ساتھ پر سکون ہو کر عید منا لیتے ہیں۔

بس دوسروں کی خوشی کے لیے اپنی خوشی کو قربان کر دیتے ہیں اور عید کا اصل مقصد بھی خوشیاں بانٹنے کا ہے۔

ہماری ڈیوٹی ہی دوسروں کی حفاظت کرنا ہے

انہوں نے مزید کہا کہ ہماری ڈیوٹی ہی دوسروں کی حفاظت کرنا ہے تو یہ ڈیوٹی نہیں بلکہ ہم پر فرض ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ شہر کی مختلف سٹرکیں ہوں یا مذہبی عبادت گاہیں، تہواروں کے موقع پرپولیس اہلکار اپنے گھر والوں کے ساتھ رہنے کی بجائے سٹرکوں پر اپنے فرائض انجام دے رہے ہوتے ہیں۔

عید پر میل نرسز کے لیے چھٹی بالکل بند ہوتی ہے

عبدالسلام راولپنڈی کے ایک معروف اسپتال میں نرس ہیں، وہ کہتے ہیں کہ عید اور دیگر تہواروں کے موقع پر خاص طور پر میل نرسز کے لیے چھٹی بالکل بند ہوتی ہے۔

خواتین کو پھر بھی تھوڑا مارجن دے دیا جاتا ہے، لیکن وہاں بھی گائنی وارڈ میں تو خواتین نرسز کو ہی ڈیوٹی دینا پڑتی ہے۔ باقی چھٹی تو ڈاکٹرز کو بھی نہیں ہوتی مگر شفٹوں کی وجہ سے انہیں پھر بھی مہلت مل جاتی ہے۔ مگر نرسز کے لیے ایسا بھی نہیں ہے۔

زیادہ تر ڈاکٹرز موجود نہیں ہوتے اور عید کے دنوں میں بعض اوقات ڈاکٹرز کے کام بھی نرسز کو ہی کرنا پڑ رہے ہوتے ہیں۔

لوگوں کو تکلیف میں دیکھ کر عید کی خوشی منانے کا دل نہیں کرتا

’ خیر ڈاکٹری کو پیغمبرانہ پیشہ کہا جاتا ہے اور لوگوں کو تکلیف میں دیکھ کر یہ خوشی منانے کا دل بھی نہیں کرتا، کیونکہ سوچتا ہوں کہ اللہ کہ مریض کا سہارا صرف ڈاکٹر ہوتا ہے اور اگر ہم بھی یوں چھٹی پر چلے جائیں تو شاید بہت سے مریض جان کی بازی ہار جائیں، اس لیے کسی کی جان سے بڑھ کر تو خوشی عزیز نہیں ہو سکتی۔‘

دعا ہے عید پر کسی کا پیارا اس سے نہ بچھڑے

آنکھوں میں نمی کے ساتھ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اسپتال میں بھی عید کی خوشیاں منائی جاتی ہیں، بس ہر عید سے پہلے ہم سب کی یہی دعا ہوتی ہے کہ عید پر کسی کا پیارا اس سے نہ بچھڑے، کم از کم سب کی عید ضرور اچھی گزر جائے۔ کیونکہ اس طرح کی صورت حال میں ہم خود بھی بہت دلبراشتہ ہو جاتے ہیں۔

18 برس کے حامد بھٹی کا تعلق فیصل آباد پنجاب سے ہے۔ جو یہاں ایک ریسٹورنٹ میں نوکری کے ساتھ 12 ویں جماعت کا طالب علم بھی ہے۔

کئی عیدیں ریسٹورنٹ پر کام کرتے ہوئے گزاری ہیں

انہوں نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں اس ریسٹورنٹ میں کام کرتے ہوئے 2 سال سے زیادہ  کا عرصہ ہو چکا ہے اور اس دوران آنے والی تمام خاص طور پر چھوٹی عیدیں اس نے اسی ریسٹورنٹس میں گزاری ہیں۔

اور اب اسے عادت ہو چکی ہے اکیلے عید منانے کی، کیونکہ وہ چاہا کر بھی چھٹی نہیں لے سکتا۔

’ پڑھائی کے اخراجات اٹھانے ہوتے ہیں اس لیے جو مالک کہتے ہیں وہ ماننا پڑتا ہے۔ بہت محسوس ہوتا ہے جب یہاں پوری پوری فیملیز آتی ہیں اور خوب انجوائے کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اکثر سوچتا ہوں پڑھائی کے مکمل ہونے کے بعد اچھی نوکری کر کے اپنے گھر والوں کو یہاں بلا لوں گا تاکہ ان کے ساتھ ہر خوشی منائی جائے۔‘

ہم عید پر نئے کپڑوں کی بجائے ریسٹورنٹ کی ورددی ہی پہنتے ہیں

ایک سوال پر حامد کا کہنا تھا کہ جہاں عید پر تمام بڑے نئے کپڑے پہن کر دوستوں کے ساتھ گھومتے ہیں ہم وہیں ریسٹورنٹ کی خاص وردی پہن کر ویٹر کی ڈیوٹی کر رہے ہوتے ہیں۔

’ اب بھی یاد ہے جب پہلی عید تھی تو ریسٹورنٹ سے واپس ہاسٹل آکر آئینے میں بہت رویا تھا کیونکہ باقی کے تمام روم میٹ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تھے اور مجھے وہ ویران کمرہ کھانے کو دوڑ رہا تھا، اس رات سوچا سب چھوڑ چھاڑ کر واپس چلا جاتا ہوں، لیکن پھر سوچا کہ جو خواب دیکھے ہیں ان سے ہاتھ دھو بیٹھوں گا، بس اس دن کے بعد سے اب تک دل اتنا پکا ہو چکا ہے کہ اب اتنا محسوس نہیں ہوتا بس دوسری فیمیلز کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہوں اور مجھے ان ٹیبلز پر کام کرنا بھی سب سے اچھا لگتا ہے۔‘

ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد عوام تک بدلتے حالات و واقعات کی رسائی کے لیے دفاتر میں موجود ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ گھروں میں بیٹھے ناظرین ہر تھوڑی دیر میں ٹی وی اسکرین پر خبریں اورمختلف تفریح پروگرام ملاحظہ کرتے ہیں۔

صرف اسکرین پر نظر آنے والے ہی نہیں بلکہ اسکرین کے پیچھے موجود ڈائریکٹرز، پروڈیوسرز، کیمرہ مین اور دیگر ٹیم بھی عید والے دن ڈیوٹیاں دیتی ہے۔

عید منائیں گے تو عوام کو باخبر کون رکھے گا

انعم نقوی نیوز اینکر ہیں، انہوں نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹرز اور نیوز اینکرز خاص طور پر آن ڈیوٹی رہتے ہیں اس کے علاوہ آف اسکرین بھی بہت سے لوگ اپنی ڈیوٹیاں دے رہے ہوتے ہیں۔ لیکن خبریں ریکارڈ نہیں کی جا سکتیں۔

جس کی وجہ سے نیوز اینکرز کو چھٹی نہیں ہوتی۔ جیسے کہ عید پر خواتین کے بغیر گھر چلانا ناممکن ہے۔ مگر پھر بھی ہم گھر والوں کو چھوڑ کر بچوں کو چھوڑ کر یہاں موجود ہوتے ہیں کیونکہ لوگوں کو ہر صورتحال، ہر خبر سے آگاہ رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔

’ دل تو بہت چاہتا ہے چھٹی ہو آرام کیا جائے بچوں اور گھر والوں کے ساتھ باہر گھومنے جایا جائے، گھر پر دعوتیں رکھی جائیں، لیکن ایسا کچھ بھی ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ اگر ہم چھٹی کر کے بیٹھ جائیں تو عوام تک خبریں کیسے پہنچیں گی۔‘

48 برس کے محمد صغیر کا تعلق اسلام آباد سے ہے اور وہ اسلام آباد کے سیکٹر جی 13 میں سٹریٹ گارڈ ہیں، وہ کہتے ہیں کہ عید کے دوران خاص طور پر ڈیوٹی دینا ہوتی ہے۔

کیونکہ اسلام آباد پردیسیوں کا شہر ہے اور عید کے موقع پر زیادہ تر لوگ اپنے آبائی علاقوں میں چلے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے شہر ویران ہوتا ہے اور اس طرح کے موقعوں پر چوری جیسے واقعات کا خدشہ زیادہ بڑھ جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ گلی کے تمام گھر یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ عید کے دنوں میں چھٹی نہ کی جائے۔

ہم جیسے لوگ بڑے لوگوں کے سامنے مجبور ہوتے ہیں

’ ہم جیسے لوگ بڑے لوگوں کے سامنے مجبور ہوتے ہیں، لیکن ان کی بات بھی ٹھیک ہے کہ وہ ہمیں تنخواہ ہی اسی چیز کی دیتے ہیں۔

لیکن ہم بھی انسان ہیں ہمارا بھی دل کرتا ہے کہ گھر والوں کے ساتھ عید کی خوشیاں منائیں لیکن ایسا ہو نہیں سکتا، اس لیے اس بارے میں سوچ کر دل ہی بڑا ہوتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ تمام گھر بہت عزت کرتے ہیں کھانے پینے کا خاص خیال رکھتے ہیں، لیکن یہ سب چیزیں اپنے گھر والوں کے بنا ادھوری لگتی ہیں۔ مگر ذمہ داری ہے، اسے نبھانا فرض ہے کیونکہ تنخواہ اسی چیز کی لیتا ہوں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp