آسٹریلوی صحافی اونی دیاس نے بھارت میں میڈیا کی آزادی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں رہ کر مودی حکومت پر تنقید کرنا میڈیا کی آزادی میں کمی کے خدشات کو جنم دے رہا ہے۔ انہوں نے سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل کے بارے میں رپورٹنگ کرنے پر دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک آسٹریلوی صحافی اونی دیاس کو نریندر مودی حکومت کی طرف سے مبینہ طور پر یہ بتانے کے بعد کہ انہوں نے سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل میں کافی پیش رفت حاصل کی ہے، پر ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
آسٹریلیا کے قومی نشریاتی ادارے اے بی سی نیوز کی جنوبی ایشیا کے بیورو چیف اونی دیاس نے دعویٰ کیا کہ ہندو قوم پرست حکومت نے ان کے لیے ملک سے رپورٹ کرنا بہت مشکل بنا دیا ہے، اور گزشتہ ہفتے ان کو اچانک ہندوستان چھوڑنا پڑا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مودی حکومت نے ان کے ویزا میں توسیع سے انکار کیا ہے، لیکن آسٹریلوی حکومت کی مداخلت کے بعد محض 2ماہ کی توسیع ملی ہے۔
’بھارتی وزارت کی ہدایت کی وجہ سے ویزا کی منظوری نہیں ملی، اور بات سراسر غلط ہے کہ بھارت میں جمہوریت بڑھ رہی ہے بلکہ وہاں کم ہورہی ہے‘۔
انہوں نے اے بی سی نیوز کو بتایا کہ وہ جنوری 2022 سے بھارت میں کام کر رہی ہیں، بھارت کی وزارت خارجہ کے ایک اہلکار نے انہیں فون کرکے مطلع کیا تھا کہ ان کے ویزے کی تجدید نہیں کی جائے گی انہیں ایک 2 ہفتوں میں ملک چھوڑنا پڑے گا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اہلکار کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ یہ فیصلہ انہوں نے سکھ علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجار کے قتل کی کوریج کی وجہ سے کیا تھا، جسے گزشتہ سال کینیڈا میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
واضح رہے ہردیپ سنگھ نجار کے قتل سے ہندوستان اور کینیڈا کے تعلقات کشیدہ ہوگئے جب وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ ان کی حکومت کے پاس 18 جون کے قتل میں ہندوستانی کارندوں کے ملوث ہونے کے قابل اعتماد ثبوت ہیں، جبکہ بھارت نے ان الزامات کی تردید کی۔
خیال رہے محترمہ دیاس کی رخصتی میڈیا پر ہندوستان کے کریک ڈاؤن پر بڑھتے ہوئے خدشات کے درمیان ہوئی ہے۔ غیر ملکی صحافیوں اور خبر رساں اداروں نے اطلاع دی ہے کہ وہ مودی حکومت کے بڑھتے ہوئے دباؤ میں آ رہے ہیں، جس نے ویزوں کی گرانٹ اور تجدید کے حوالے سے اپنی صوابدید کو ان کے خلاف چھڑی کے طور پر استعمال کیا ہے۔
پچھلے سال، ٹیکس حکام نے دہلی اور ممبئی میں بی بی سی کے دفاتر پر چھاپے مارے جب برطانوی نشریاتی ادارے نے 2002 کے گجرات فسادات میں مسٹر مودی کے کردار کی تحقیقات کرنے والی ایک دستاویزی فلم نشر کی جس میں 800 مسلمان اور 200 ہندو ہلاک ہوئے تھے، مسٹر مودی اس وقت ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق، بھارت میں اس وقت کم از کم سات صحافی جیل میں ہیں۔ اس سال جنوری میں فرانسیسی صحافی وینیسا ڈوگنیکٹ نے بھی اعلان کیا کہ وہ تقریباً دو دہائیوں کے بعد ہندوستان چھوڑ رہی ہیں۔
محترمہ ڈوگنیکٹ نے دعویٰ کیا کہ انہیں ہندوستان کی بیرون ملک شہریت رکھنے کے باوجود ملک میں بطور صحافی کام کرنے سے روکا جا رہا ہے، جو کہ مستقل رہائش کی ایک شکل ہے، کیونکہ حکومت ان کی رپورٹنگ کو ’بد نیتی پر مبنی اور تنقیدی‘ سمجھتی ہے۔