چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ میری نگرانی میں عدالتی امور میں مداخلت کی کوئی شکایت بھی موصول نہیں ہوئی۔ یہ بات یقینی ہے کہ عدلیہ کے امور میں کسی بھی قسم کی مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں
جمعرات کو سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس ایچ سی بی اے) سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ‘جب سے میں چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوا ہوں، مجھے ہائی کورٹ کے کسی بھی جج کی طرف سے مداخلت کی ایک بھی شکایت نہیں ملی ہے ۔ اگر ان کے کام میں مداخلت ہوئی ہے تو پھر اس کی اطلاع مجھے نہیں دی گئی۔
چیف جسٹس آف پاکستان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کی جانب سے عدالتی معاملات میں مداخلت کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
25 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 8 ججوں میں سے 6 ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کے ارکان کو ایک خط لکھا تھا، جس میں ججوں پر ان کے رشتہ داروں کے اغوا اور تشدد کے ساتھ ساتھ ان کے گھروں کے اندر خفیہ نگرانی کے ذریعے دباؤ ڈالنے کی کوششوں کے بارے میں شکایت کی گئی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے خط میں جن واقعات کا ذکر کیا گیا ہے وہ ان کی مدت ملازمت سے پہلے کے ہیں۔ مداخلت قابل قبول نہیں ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی، میری نگرانی کے دوران مجھے کچھ بھی رپورٹ نہیں کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ مداخلت قابل قبول نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کو سندھ ہائی کورٹ نے جو حمایت فراہم کی تھی اس کا ذکر کیا گیا تھا، انہوں نے مجھے بھی خط لکھا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں ان کی جانب سے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
سندھ ہائی کورٹ کی عمارت میں کام کرنے کے اپنے وقت کو یاد کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ میرے پاس اس عمارت اور اس کے ساتھ والی عمارت کی بہت سی یادیں ہیں۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کی جانب سے لکھے گئے خط پر جسٹس محسن اختر کیانی، طارق محمود جہانگیری، بابر ستار، سردار اعجاز اسحاق خان، ارباب محمد طاہر اور سمن رفعت امتیاز کے دستخط ہیں۔ اس کے ایک روز بعد مختلف حلقوں سے تحقیقات کا مطالبہ سامنے آیا تھا جس کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے ججز کا فل کورٹ اجلاس طلب کیا تھا۔
چیف جسٹس اور وزیراعظم شہباز شریف کے درمیان 28 مارچ کو ہونے والی ملاقات کے بعد کابینہ کی منظوری کے بعد عدالتی معاملات میں مداخلت کے خدشات کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا۔ تاہم سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی، جنہیں کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا، نے بعد ازاں خود کو اس معاملے سے الگ کر لیا، جس کے بعد سپریم کورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا۔
3 اپریل کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ عدلیہ کی آزادی پر کوئی حملہ برداشت نہیں کیا جائے گا اور عدالتی معاملات میں مداخلت کے الزامات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ بنانے کا عندیہ دیا تھا۔