ججز کے خط کا معاملہ: چیف جسٹس کا آئندہ سماعت پر فل کورٹ بنانے کا عندیہ

بدھ 3 اپریل 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

خفیہ اداروں کی عدالتی امور میں مداخلت سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط کے معاملے پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کی سماعت 29 اپریل تک ملتوی کردی۔ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اس معاملے پر فل کورٹ نہ بنانے کی وجہ ججز کی عدم دستیابی تھی، کچھ ججزلاہور اور کچھ کراچی میں تھے، ممکن ہے آئندہ سماعت پرفل کورٹ بنا دیں۔

گزشتہ روز سپریم کورٹ نے اس معاملے پر ازخود نوٹس لیا تھا اور کیس کی سماعت کے لیے 7 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔ آج اس معاملے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں اس 7 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ خان آفریدی،جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہرمن اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان بھی بینچ میں شامل تھے۔ کیس کی سماعت سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی گئی۔

’ہم نے اس معاملے پر بڑی رفتار سے کام کیا‘

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سماعت کا آغاز کیسے کریں، پہلے پریس ریلیز پڑھ لیتے ہیں۔ اسی دوران  وکیل حامد علی خان نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے اس کیس میں فریق بننے کی درخواست داٸر کر رکھی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے، ’اب وہ زمانے گٸے کہ چیف جسٹس کی مرضی ہوتی ہے، ہم نے  کیسز فکس کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دی ہے۔‘

چیف جسٹس نے وکیل حامد علی خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ سے بہتر کون قانون جانتا ہے، آپ کی درخواست ابھی ہمارے پاس نہیں آئی، جب درخواست آجائے تو انتظامی کمیٹی اس پر فیصلہ کرتی ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے بعد چیف جسٹس اکیلے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے بڑی رفتار سے کام کیا، 26 مارچ کو خط آیا اسی دن میٹنگ رکھ کی، عدلیہ کی آزادی پر اگر کوئی حملہ کرے گا تو ہم سب اس کے دفاع کے لیے آئیں گے، ہم کسی قسم کا دباؤ برداشت نہیں کریں گے۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ میں آپ کی توجہ اس جانب دلانا چاہتا ہوں، جس پر چیف جسٹس بولے کہ کمیٹی کا ایک رکن اس بینچ میں نہیں، یہاں توجہ نہ دلائیں۔

’فیصلوں سے دیکھنا چاہیے کہ دباؤ تھا یا نہیں‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے، ’پہلے جو طرز عمل تھا چیمبر میں آگئے، کیس لگ گیا وہ ختم کر دیا، ہم دوسروں پر انگلی اٹھاتے ہیں پہلے خود پر اٹھانی چاہیے، پٹیشن دائر ہونے سے پہلے اخبار میں چھپ جاتی ہے، کیا یہ بھی پریشر ڈالنے کا طریقہ ہے، میں تو پریشر نہیں لیتا، فیصلوں سے دیکھنا چاہیے دباؤ تھا یا نہیں۔‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ وکلا کہتے ہیں کہ سوموٹو لے لو، پھر وکلا کو وکالت چھوڑ دینی چاہیے، میں آپ کو وکلا کے نمائندے کے طور پر نہیں لے سکتا، وکلا کے نمائندے کے طور پر بار کے صدر موجود ہیں۔‘

چیف جسٹس نے بیرسٹر اعتزاز احسن کے وکیل احمد حسین کو بھی بولنے سے روک دیا اور اٹارنی جنرل کو فل کورٹ کے بعد جاری پریس ریلیز پڑھنے کی ہدایت کی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہم شاید پروپیگنڈا میں گوئبلز کے زمانے کو واپس لا رہے ہیں، جس دن خط آیا اسی دن ہائیکورٹ ججز سے ملاقات ہوئی، اس سے زیادہ چستی سے شاید کسی نے کام کیا ہو، ہم اس معاملے کو اہمیت نہ دیتے تو کیا یہ میٹنگ رمضان کے بعد نہیں ہو سکتی تھی۔

’کسی کا ایجنڈا ہے تو خود ہی چیف جسٹس  یا سپریم کورٹ بار کا صدر بن جائے‘

اٹارنی جنرل بولے کہ جب وزیراعظم سے کہا کہ آپ ملنا چاہتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ جتنی جلدی ممکن ہو وہ ملیں گے، آپ نے اور جسٹس منصور علی شاہ نے وزیراعظم کو جو تحفظات پہنچائے تھے انہوں نے ان کو دور کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی، وفاقی حکومت بالکل ایک غیر جانبدار کمیشن مقرر کرنا چاہتی تھی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے، ’ہم نے فل کورٹ میٹنگ کی، اس سے پہلے 4 سال فل کورٹ میٹنگ نہ ہوئی، اس وقت وکلا کہاں تھے، مداخلت کبھی برداشت نہیں کرتے، کسی کا کوئی اور ایجنڈا ہے تو یا چیف جسٹس بن جائے یا سپریم کورٹ بار کا صدر بن جائے۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس جاری رکھے، ’وزیراعظم، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل سے انتظامی طور پر ملاقات کی، چھپ کر یا گھر میں بیٹھ کر نہیں ملاقات کی، وزیراعظم کو زیادہ ووٹ حاصل ہیں اس لیے وہ انتظامیہ کے سربراہ ہیں۔

’میڈیا پر تاثر بنایا گیا جیسے حکومت مرضی کا کمیشن بنانا چاہتی ہے‘

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سابق چیف جسٹس ناصرالملک اور جسٹس تصدق حسین جیلانی کے نام سپریم کورٹ نے ہی تجویز کیے تھے، وزیر قانون لاہور میں جسٹس تصدق حسین جیلانی سے ملے، انہوں نے کہا کہ آپ شرائط و ضوابط طے کریں پھر مجھے بتائیں، 2017 انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت کمیشن کی پاورز بہت زیادہ ہوتی ہیں، وہ توہین عدالت کی کارروائی کر سکتا ہے، میڈیا پر ایسا تاثر بنایا گیا کہ کہ جیسے وفاقی حکومت اپنی مرضی کا کمیشن بنانا چاہ رہی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کون ایسے ماحول میں کوئی خدمت انجام دے سکتا ہے، شریف آدمی پر حملے ہوں گے تو وہ تو چلا جائے گا اور کہے گا کہ آپ سنبھالیں، ایسے ایسے الزامات لگے کہ ہمیں انہیں نامزد کر کے شرمندگی ہوئی، پتہ نہیں ہم نے اس قوم کو تباہ کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ سوشل میڈیا پر انکوائری کمیشن سے متعلق غلط باتیں کی گئیں، تمام حکومتی ادارے حکومتی کمیشن کی معاونت کے پابند ہیں، سابق چیف جسٹس ناصرالملک کا نام بھی انکوائری کمیشن کے لیے سامنے آیا۔

اٹارنی جنرل نے مزید بتایا کہ ، تصدق جیلانی ایک غیرجانبدار شخصیت ہیں، وزیراعظم سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی سے ملے اور کمیشن کی تشکیل کا بتایا، سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی نے کہا ٹی او آرز کے بعد جواب دونگا۔

’عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہوگا تو سارے ساتھی کھڑے ہونگے‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہوگا تو میں اور سارے ساتھی کھڑے ہوں گے، عدلیہ میں کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کریں گے، وکلا تب کیوں نہیں بولے جب 4 سال تک فل کورٹ اجلاس نہیں ہوا، ہم کسی قسم کا دباؤ نہیں لیں گے۔

بعد ازاں، اٹارنی جنرل نے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کا کمیشن سے الگ ہونے والا خط پڑھ کر سنایا، جس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ میں نے اکیلے ہی تصدق حسین جیلانی کو مقرر نہیں کیا، اپنے ساتھی جج صاحبان سے مشورے کے بعد ان کا نام تجویز کیا، یہ تاثر غلط ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے اختیارات وفاقی حکومت یا کمیشن کو دے دئیے۔

’جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی پر تنقید سن کر مجھے شرم آئی‘

چیف جسٹس نے کہا کہ انکوائری کمیشن بنا تو تصدیق جیلانی صاحب پر ذاتی حملے کیے گئے، تصدق جیلانی پیسوں کے لیے نہیں کر رہے تھے، سوشل میڈیا پر جو باتیں ہوئیں مہذب معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا، تصدیق جیلانی پر بے جا تنقید سن کر مجھے شرم آئی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جو کچھ تصدق جیلانی کے بارے میں سوشل میڈیا پر کہا گیا اس کے بعد انھوں نے معذرت کر لی، ان کا خط مجھے موصول نہیں ہوا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ تصدق جیلانی نے خط وزیراعظم کو لکھا تھا۔ پھر اٹارنی جنرل نے سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی کا خط پڑھ کر سنایا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہر ادارہ اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرے، کمیشن بنانے کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس نہیں وفاقی حکومت کے پاس ہے۔

’تصدق جیلانی نے ٹی او آرز پر اتفاق کیا تھا‘

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کمیشن کے پاس بہت سے اختیارات ہیں، کمیشن کی ساری کارروائی جوڈیشل ہو گی، چیف جسٹس نے 2 نام تجویز کیے تھے، جسٹس ریتائرڈ ناصر الملک اور جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی کے نام تجویز کیے گئے، جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی سے وزیر قانون کی ملاقات ہوئی۔

اٹارنی جنرل نے مزید بتایا کہ جسٹس تصدق جیلانی نے ٹی او آرز مانگے، وزیراعظم نے ٹی او آرز کے بعد دوبارہ جسٹس تصدق جیلانی سے رجوع کرنے کی ہدایت کی، جسٹس ر تصدق جیلانی نے ہفتہ کے روز ٹی او آرز پر اتفاق کیا اور اس عدالت سے مانیٹرنگ جج لگے۔

اٹارنی جنرل بولے کہ آپ کو مرزا افتخار احمد نامی شخص نے قتل کی دھمکیاں دیں، آپ کی یعنی چیف جسٹس کی اہلیہ ایف آئی آر درج کرانے گئیں لیکن ہوا کچھ نہیں، آج وفاقی حکومت کم سے کم وقت میں سپریم کورٹ کے پاس پہنچی اور عمل درآمد کیا۔

اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ ہمیں تقابلی جائزہ لینا پڑے گا کہ پہلے سپریم کورٹ کے معاملات پر حکومت کس طرح سے ری ایکٹ کرتی تھی، ججز معاملے کو حل کرنے کے لیے وفاقی حکومت کی جو مدد چاہیے دیں گے، ہم عدلیہ کی آزادی کے لیے ہر قسم کی مدد فراہم کریں گے۔

’سپریم کورٹ میں 2017 سے 2021 تک جو کچھ ہوتا رہا سب کے سامنے ہے‘

اٹارنی جنرل نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ایک طرف عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے تو دوسری طرف انتظامیہ کی ساکھ کا معاملہ بھی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے سامنے کچھ گزارشات رکھنا چاہتا ہوں، عدلیہ کی آزادی پروفاقی حکومت کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں، یہیں سے فیصلے ہوئے اور جے آئی ٹیز بنیں، خلاف قانون مانیٹرنگ جج تعینات کیے گئے، 2017 سے 2021 کے دوران جو کچھ ہوتا رہا وہ سب کے سامنے ہے مگر یاد کرانا چاہتا ہوں کہ یہاں پر یہ سب کچھ ہوتا رہا۔

اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے بارے میں بھی بات کرنا چاہتا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے، ’میں پھر سیٹ بیلٹ باندھ لوں۔‘ چیف جسٹس کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقے گونج اٹھے۔

’سرینا عیسیٰ نے ایف آئی آر درج کرانا چاہی مگر نہ کروا سکیں‘

اٹارنی جنرل نے پھر بات شروع کی کہ آپ کو مرزا افتخار نے قتل کی دھمکیاں دی۔ چیف جسٹس بولے کہ آپ میری بات چھوڑ دیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ بات کرنا بہت ضروری ہے، تاریخ سب کے سامنے آنی چاہیے، مسز سرینا عیسیٰ ایف آئی آر درج کروانے گئیں مگر ایف آئی آر درج نہیں ہوئی، اس وقت کی وفاقی حکومت نے معاملہ ایف آئی اے کو بھیج دیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سرینا عیسیٰ نے مرزا شہزاد اکبر اور لیفٹینٹ جنرل فیض حمید کے بارے بیان ریکارڈ کروایا، اس وقت کی وفاقی حکومت نے کوئی ایکشن نہیں لیا، اس سارے دور میں 2 چیف جسٹس پاکستان ریٹائرڈ ہو گٸے، آپ نے 24 گھنٹوں میں معاملے کو ٹیک اپ کیا، وزیراعظم کی مکمل سپورٹ اس معاملے پر حاصل ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک نئی وبا پھیلی ہوئی ہے سوشل میڈیا، اگر کسی جج کے کام میں مداخلت کی جارہی ہے تو وہ خود توہین عدالت کی کارروائی کرسکتے ہیں، اس معاملے میں انہیں سپریم کورٹ یا سپریم جوڈیشل کونسل کی اجازت کی کوئی ضرورت نہیں، ججز کو یہ اختیار آئین اور قانون دیتا ہے۔

’شوکت صدیقی فیصلہ 6 ججز کو فائدہ پہنچا رہا ہے‘

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ خط میں جسٹس شوکت صدیقی کیس کا بھی تذکرہ ہے، سپریم جوڈیشل کونسل نے شوکت صدیقی کو عہدے سے ہٹایا، سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ شوکت صدیقی کو صفائی کا موقع نہیں دیا، عدالتی فیصلہ ہائی کورٹ کے 6 ججز کو فائدہ پہنچا رہا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ججز کو دبائو ساتھی ججز، اہلخانہ، بچوں اور دوستوں سے بھی آ سکتا ہے، آج کل نئی وبا پھیلی ہوئی ہے سوشل میڈیا اور میڈیا کا بھی پریشر ہوتا ہے۔

’میرے اور جسٹس سردار طارق مسعود کے بجائے جونیئر جسٹس اعجازالاحسن ملاقات میں موجود تھے‘

اٹارنی جنرل نے 6 ججز کا خط پڑھا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گزر جانے والے لوگوں کی برائی نہیں کرنا چاہتا لیکن عمر عطا بندیال کا سینئر پیونی جج میں تھا، یہ ججز جب ملے تو اس ملاقات میں نہ میں تھا اور نہ مجھ سے جونیئر جسٹس سردار طارق مسعود بلکہ ان سے جونئیر جسٹس اعجاز الاحسن اس ملاقات میں موجود تھے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت میں ہم وزیراعظم کو نہیں بلا سکتے۔ اٹارنی جنرل بولے کہ کیونکہ انہیں آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ حاصل ہے۔

’ہم سے پہلے شرطیں لگی تھیں کہ انتخابات نہیں ہوں گے‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ ججز نے خط میں ادارہ جاتی ریسپانس کی بات ہے، اس معاملے میں ہم سے بہتر ریسپانس کس نے دیا ہو گا، ہم سے پہلے شرطیں لگی تھیں کہ انتخابات نہیں ہوں گے، ہم نے جس کا فرض تھا اس سے کام کروایا، کہا گیا کہ 300 وکیلوں نے خط لکھا، میں نے تو اس پر دستخط نہیں دیکھے، نام لکھنے کو میرا نام بھی لکھ دیں، جب سے چیف جسٹس بنا ہوں مجھے کسی جج نے نہیں کہا کہ مجھ پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے ۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ نے چیف جسٹس کو دھمکیاں دینے والے مرزا افتخار کی بات کی تو کیا وہ منطقی انجام تک پہنچا کہ نہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب ایک ریفرنس دائر ہوا تھا جس کے بارے میں اس وقت کے وزیراعظم نے تسلیم کیا کہ غلطی تھی، اس پر کیا کاروائی ہوئی۔

’غلطیاں پہلے بھی ہوئیں، اب بھی ہو رہی ہیں‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ غلطیاں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں، اب بھی ہو رہی ہیں لیکن ہم نے اپنا احتساب کر کے دکھایا ہے، سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں ججز پر دباو کا خط آیا مگر انہوں نے نہ مجھ سے مشاورت کی نہ بتایا گیا۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ میرے سیکریٹری نے کہا ہائیکورٹ کے ججز آئے ہیں تو میں نے فوری ملاقات کی، میں ایگزیکٹو نہیں مگر پھر بھی ملاقات کر کے ججز کی بات سنی، ججز اگر توہین عدالت کا نوٹس لیں تو وضاحت کے لیے سب کو پیش ہونا ہوتا ہے، یا جمہوریت پر یقین کریں یا پھر نا کریں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ بس میری چلے، اگلی بار آپ الیکشن جیت کر آ جائیے گا۔

’سیاسی انجینئرنگ ہوتی رہی اور یہ عدالت بھی ملوث تھی‘

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ درست ہے کہ سیاسی انجینئرنگ ہوتی رہی اور شاید یہ عدالت بھی ملوث تھی، ججوں کا خط یہ بتا رہا ہے کہ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ چیف جسٹس کےخلاف ریفرنس فیض آباد دھرنا فیصلے کی وجہ سے آیا تھا، ہم نے اپنا احتساب کیا حکومت بھی اپنی ذمہ داری پورے کرے۔ جسٹس مندوخیل بولے کہ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ مداخلت یہاں رک جائے اور مستقبل میں نہ ہو۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ شترمرغ کی طرح گردن زمین میں دبا کر نہیں بیٹھ سکتے، سول جج سے سپریم کورٹ تک اس معاملے پر پورا نظام بنایا ہوگا، عدلیہ میں مداخلت کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے بند کرنا ہوگا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے ضمانت دی اور اس فیصلے کو ہوا میں اڑا دیا گیا۔ چیف جسٹس بولے کہ 76 سال سے ملک کے ساتھ یہ ہو رہا ہے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایم پی او کا سہارا لیکر عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی حکومت ہی کر رہی ہے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ ہم آنکھیں بند کر کے یہ تاثر نہیں دے سکتے ہمیں کچھ پتہ نہیں، 76 سال سے جو ایک سوال تھا، ججوں کے خط میں وہ آیا ہے۔

’کسی نہ کسی سے انکوائری کرانا ہوگی‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ بار کے صدر سے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ خود کسی مسڑ ایکس کو مداخلت کا ذمہ دار قرار دے سکتی ہے، ہم کیسے تفتیش کریں گے، کسی نہ کسی سے انکوائری کرانا ہو گی۔

صدر سپریم کورٹ بار نے جواب دیا کہ اسی لیے سپریم کورٹ بار انکوائری کمیشن کی حامی تھی، کسی اور نے کوئی متبادل راستہ بھی نہیں بتایا۔

چیف جسٹس نے بتایا کہ فل کورٹ نہ بنانے کی وجہ ججز کی عدم دستیابی تھی، کچھ ججزلاہور اور کچھ کراچی میں تھے، ممکن ہے آئندہ سماعت پرفل کورٹ بنا دیں۔

سپریم کورٹ نے معاونت کے لیے تحریری معروضات طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 29 اپریل تک ملتوی کردی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp