چند روز قبل شہدا فورم بلوچستان کے پیٹرن انچیف نوابزادہ جمال رئیسانی نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں شہدا کے خاندانوں کے تحفظ، ان کے خلاف ہونے والے امتیازی سلوک اور لاپتا افراد کے صیغے کے غلط استعمال کو روکنے سے متعلق درخواست دائر کی۔
درخواست گزار کی جانب سے استدعا کی گئی ہے کہ شہدا کے خاندانوں کو معاوضہ دیا جائے اور دہشتگردوں کے خلاف زیر التوا مقدمات کو جلد از جلد نمٹایا جائے۔ ’ریاست فوری ایسے اقدامات کرے کیونکہ اکثر لاپتا افراد ریاست اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف لڑتے ہوئے پائے گئے ہیں‘۔
مزید پڑھیں
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے جمال رئیسانی نے کہاکہ بلوچستان میں لاپتا افراد کے معاملے پر سیاسی اور قبائلی رہنماؤں کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک مضبوط کمیشن ہونا چاہیے اور لاپتا افراد کو بازیاب ہونا چاہیے لیکن ہمارے سیاسی حریف اس حساس معاملے کو سیاسی رنگ دیتے ہیں جبکہ ملک دشمن عناصر بھی لاپتا افراد کے مسئلے کو ہوا دیتے ہیں۔
جمال رئیسانی نے کہا کہ 2006 میں سپریم کورٹ کی سربراہی میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کمشین قائم کیا گیا تھا جس کی رپورٹ کے مطابق صوبے میں 10 ہزار سے زیادہ افراد کے لاپتا ہونے کا انکشاف کیا گیا تھا۔ مگر 10 ہزار افراد کے لاپتا ہونے کی تعداد کسی ریاستی ادارے نے نہیں دی تھی۔
انہوں نے کہاکہ ان 10 ہزار افراد میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو گھروں سے بھاگ گئے تھے، کچھ ایسے افراد بھی تھے جو غیر قانونی طریقوں سے دوسرے ممالک ہجرت کرگئے تھے جبکہ کچھ ایسے افراد کو بھی لاپتا افراد کی فہرست کا حصہ بنایا گیا جو مختلف دہشتگرد تنظیموں میں شامل ہو گئے۔
دہشتگردوں اور لاپتا افراد میں فرق کرنا ہوگا
جمال رئیسانی نے کہاکہ سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں یہ شق ڈالنے کا مقصد یہ ہے کہ جو افراد جبری طور پر گمشدہ ہیں انہیں واپس ان کے گھروں تک پہنچایا جائے اور دہشتگردوں کو علیحدہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اب لاپتا افراد کی تعداد 2 ہزار کے ہے، ان میں سے جبری طور پر گمشدہ افراد کو علیحدہ اور دہشتگردوں کو علیحدہ کیا جانا چاہیے۔
جمال رئیسانی نے کہاکہ اس ضمن میں ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ بلوچستان سے منتخب ہونے والے اراکین قومی اسمبلی کو یکجا کیا جائے، اس حوالے سے منتخب نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے اس معاملے پر جلد قرارداد ایوان میں پیش کریں گے۔