خیبر پختونخوا کےضلع اپر چترال میں بونی کے علاقے میں دوران علاج ہلاک ہونے والی مادہ بھیڑیے کو دفنانے لے جاتے وقت 2 افراد کی جانب سے مبینہ طور پر جانور کی جائے مخصوصہ کاٹنے کی کوشش پر لڑائی کے دوران محکمہ وائلڈ لائف کا ملازم زخمی ہو گیا۔
مزید پڑھیں
اپر چترال کے ہیڈکوراٹر میں واقع تھانہ بونی میں درج ایف آئی آر کے مطابق واقعہ بونی کے علاقے کرائے جنالی میں پیش آیا ہے۔ جس کی رپورٹ محکمہ وائلڈ لائف کے نائب قاصد کی مدعیت میں درج ہوئی۔
قصہ کہاں سے شروع ہوا؟
چند دن پہلے اپر چترال کے علاقے تورکہو کے نوجوانوں نے آبادی سے کچھ دوری پر جنگلی بھیڑیے کو زخمی حالت میں دیکھا اور ریسکیو کرکے ابتدائی مرحم پٹی کے بعد محکمہ وائلڈ لائف کے حکام کے حوالے کر دیا جس سے محکمے نے علاج کے لیے ضلعی ہیڈ کوارٹر بونی منتقل کر دیا۔
محکمے کے ایک ملازم نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ دوران علاج مادہ بھیڑیا مر گئی جسے آبادی سے دور دریا کے ساتھ دفنانے کے لہئ محکمے کے نائب قاصد کے حوالے کردیا گیا۔
نائب قاصد نے پولیس کو اپنی شکایت میں بتایا کہ وہ آفس سے چھٹی کے بعد مردہ بھیڑیے کو ہاتھ گاڑی میں ڈال کر لے جا رہا تھا کہ اسے راستے میں ملزمان نے روکا اور کہا کہ وہ مردہ بھیڑیے کی جائے مخصوصہ کاٹ کر لے جانا چاہتے ہیں جس پر مدعی نے صاف انکار کردیا۔ مدعی کے مطابق اس کے انکار پر ان افراد نے اسے تشدد کا نشانہ بنایا جس سے اس کے ماتھے پر بھی چوٹ آئی۔
تھانے میں صلح کی کوشش
بونی تھانے کے ایک اہلکار نے ایف آئی آر کے اندراج کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ بات جب تھانے تک پہنچی تو ایف آئی آر سے پہلے صلح کی کوشش کی گئی لیکن محکمہ وائلڈ لائف نے صلح صفائی سے انکار کردیا۔
پولیس اہلکار نے بتایا کہ مقدمہ درج نہ کروانے کے عوض ملزمان مدعی کو 15 ہزار روپے دینے کو تیار تھے لیکن اس نے ایک نہ سنی جس پر پولیس نے ایف آئی آر درج کرلی۔
کچہری میں کیا ہوا؟
ایف آئی آر کے اندراج کے بعد بات عدالت گئی اور جج نے کیس کو سنا۔ وہاں موجود ایک شخص نے بتایا کہ عدالت کے احاطے میں پورا دن اس بات پر ہنسی مذاق ہوتا رہا۔
عدالت میں دونوں فریقین کی صلح کرادی گئی اور زخمی ملازم کو 50 ہزار روپے ادا کردیے گئے جس کے بعد اس نے مقدمہ واپس لے لیا۔
مردہ بھیڑیے کے ساتھ کیا ہوا؟
اس حوالے سے اپر چترال میں اور سوشل میڈیا پر ایک بحث چھڑ گئی اور واٹس ایپ پر مزاحیہ میسیجز بھی کیے جاتے رہے۔
بونی میں تعینات ایک سرکاری افسر نے وی نیوز کو بتایا کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ بھیڑیے کے ساتھ کیا ہوا تو انہوں نے بتایا کہ ہاتھا پائی کے بعد کچھ وقت تو مادہ بھیڑیا اسی جگہ پڑی رہی جہاں اسے دفنانے کے لیے لے جایا جا رہا تھا تاہم بعد میں بھیڑیے کو دریا کنارے دفن کردیا گیا۔
افسر نے بتایا کہ ’میری معلومات کے مطابق تنازعے کے دوران کوئی اور چپکے سے بھیڑیے کی جائے مخصوصہ کاٹ کر نکل گیا اور ملزمان و نائب قاصد کی لڑائی و افراتفری میں کچھ اندازہ نہیں ہوسکا کہ وہ کام کس کا تھا‘۔
سرکاری افسر نے بتایا کہ انہیں لگتا ہے کہ بات مذاق میں شروع ہوئی ہو گی جو اتنی آگے بڑھ گئی لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ مادہ بھیڑیا کے ساتھ بالآخر وہ کام ہوہی گیا جو ملزمان کرنے میں ناکام رہے تھے۔
کیا ملزمان نے واقعی اس قبیح فعل کی کوشش کی؟
نائب قاصد اور ملزمان کے درمیان صلح صفائی تو خیر ہوگئی لیکن یہ واضح نہیں ہوسکا کہ آیا ملزمان واقعی وہ کام کرنا چاہتے تھے جس کا الزام نائب قاصد نے لگایا تھا یا وہ الزام محض جھگڑا بڑھنے کی صورت میں مدعی کی جانب سے لگایا گیا۔ لیکن ایک بات حقیقت ہے کہ وہ قبیح فعل بالآخر کسی اور نامعلوم کی جانب سے انجام ضرور دے دیا گیا۔
من گھڑت قصہ
ایف آئی آر میں نامزد ملزمان نے واقعے کو من گھڑت قرار دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر پوسٹ میں انہوں نے لکھا ہے علاقے کے کچھ لوگوں نے ان کی عزت کے ساتھ کھیلنے کی خاطر وہ واقعہ گھڑا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ کافی عرصے سے وائلڈ لائف کے دفتر موجود زخموں کی تاب نہ لاکر مرجانے والی مادہ بھیڑیا کو محکمے کا ملازم ریڑھی میں لاد لے جارہا تھا جس پر ان لوگوں نے اس سے پوچھ لیا کہ وہ اس مردہ بھیڑیا کو اس طرح غیر پیشہ ورانہ طریقے سے کہاں لے جا رہا ہے تو اس نے بتایا کہ وہ اسے نیچے دریا کے ساتھ شوتار میں پھیمکنے کے لیے لے جارہا ہے۔
اس پر ایف آئی آر میں نامزد ہونے والے ملزمان کے بقول انہوں نے ٹی ایم اے کو کال کرکے دفنانے کا مشورہ دیا اور ساتھ ویڈیو بنانے لگے جس پر ملازم مبینہ طور پر مشتعل ہوا اور ان پر حملہ کردیا اور اس دوران خود ہی گر کر زخمی ہوگیا۔
پوسٹ میں انہوں نے ایف آئی آر میں لگے الزامات پر حیرانی کا اظہار کیا اور انہیں من گھڑت قرار دیا۔
اس قبیح عمل کی وجہ کیا تھی؟
گو ملزمان نے تو وہ قبیح فعل نہیں کیا لیکن بعد میں وہ کام کوئی اور دکھا گیا۔ اس حوالے سے کوئی واضح وجہ تو سامنے نہیں آسکی لیکن علاقے کے کچھ بڑے بوڑھوں کے مطابق ایسا کہا جاتا ہے کہ اگر مادہ بھیڑیے کی جائے مخصوصہ کو کاٹ کر کوئی نوجوان کسی طرح تعویز یا کسی اور صورت پہن لے تو اسے لڑکیوں کو اپنی جانب راغب کرنے میں مدد ملتی ہے۔ تاہم اس بات کی تصدیق پھر بھی نہیں ہوسکی کہ مادہ بھیڑیے کے ساتھ ایسا کرنے کی اصل وجہ کیا رہی ہوگی اور وہ کون تھا جو تمام جھگڑے کے دوران وہ کام چپکے سے کرگیا۔