ایبٹ آباد، عاطف منصف خان کے والد اور دادا بھی دشمنی کی بھینٹ چڑھے

منگل 21 مارچ 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ابیٹ آباد کی تحصیل حویلیاں کے شیر خان عرف شیرا اور بلند خان کی دوستی سیاست کی نذر ہوئی ، اور پھر دشمنی میں ایسی بدلی کہ اب تین نسلیں خون میں نہا گئیں لیکن  خون کی ندیا بہے چلے جا رہی ہے۔ اس کی راہ میں رکاوٹ کھڑے کرنے والے ناکام ثابت ہوئے۔ ایک کے بعد دوسرا خاندان خون بہا رہا ہے اور کسی کی پیاس بجھ ہی نہیں رہی۔

شیر خان: تصویر وی نیوز

یہ خونی کہانی شروع ہوتی ہے شیر خان کے قتل سے جو تحصیل چیئرمین حویلیاں عاطف منصف خان کے دادا تھے، اور پھر پہنچتی ہے عاطف منصف خان تک، جو گزشتہ روز لنگڑا کے علاقے میں ایک ٹارگٹیڈ حملے میں دس ساتھیوں سمیت قتل کردئیے گیے۔

تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے عاطف منصف خان پر حملہ اس قدر لرزہ خیز تھا کہ ان کی گاڑی کو ایسی آگ لگی کہ گاڑی میں سوار کوئی ایک فرد بھی بچنے کی کوشش نہ کرسکا۔ تمام افراد کی لاشیں جل کر نا قابل شناخت ہو گئیں۔

ڈی پی او ایبٹ آباد عمر طفیل نے وی نیوز کو بتایا کہ واقعہ پرانی دشمنی کا نتیجہ ہے جو انیس سو ساٹھ کی دہائی سے چلی آ رہی ہے۔

شیر خان اور بلند خان کی دوستی دشمنی میں کیسے بدلی؟

سن ساٹھ کی دہائی میں شیر خان اور بلند خان کی دوستی مشہور تھی۔ لوگ اس کی مثالیں دیتے تھے لیکن پھر کرسی کی سیاست نے دونوں دوستوں کے درمیان میں تلخی اور دوری پیدا کردی۔

وقار خان ایبٹ آباد کے ڈسٹرکٹ ریزولیوشن کمیٹی (ڈی آر سی) کے ڈپٹی چئیرمین ہیں، ان کا تعلق حویلیاں سے ہے،  وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے اپنے بڑوں سے سنا ہے، شیر خان اور بلند خان بچپن سے دوست تھے۔ ان کی دوستی میں دوری اس وقت پیدا ہوئی جب ایوب خان دور میں ڈسٹرکٹ اور تحصیل کونسل کے انتخابات ہوئے تو شیر خان ڈسٹرکٹ کونسل ممبر منتخب ہوئے۔ اسی دن سے ان کی دوستی سے دشمنی کا سفر شروع ہوگیا۔

 انہوں نے بتایا  1967 -1968 میں پہلی بار دونوں خاندانوں کے درمیان دشمنی اس وقت شروع ہوئی جب عاطف منصف خان کے دادا جو اس وقت ممبر ضلع کونسل بھی تھے ، کو  فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔

شیرخان کے قتل کا الزام بلندخان پر عائد کیا گیا، اور اس قتل کا بدلہ لینے کا اعلان کیا گیا۔ یوں شیر خان کے بعد بلند خان قتل ہوئے۔ دونوں جانب سے خون ریزی شروع ہو گئی، جو تیسری پشت تک پہنچ گئی ہے۔

بلند خان: تصویر ، وی نیوز

شیر خان کے بیٹے اور عاطف خان کے والد منصف خان بھی قتل کردئیے گیے ۔ وہ خاندان کے پہلے فرد تھے جو ممبر خیبر پختونخوا اسمبلی منتخب ہوئے اور ن لیگ  کی حکومت میں وزیر بھی بنے تاہم وہ بھی دشمنی کے اس سلسلہ میں جان گنوا بیٹھے۔

منصف خان کو بھی آبائی علاقے ہی میں فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔ علاقے کے ایک بزرگ جو تمام احوال سے واقف ہیں ، نے بتایا کہ منصف خان کا قتل شیر خان خاندان کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔ جب وہ ممبر اسمبلی منتخب ہوئے اور خاص کر کابینہ ممبر بنے تو ان کی طاقت بہت بڑھ گئی۔ اب مخالفین ان کے سامنے کھڑے نہیں ہوسکتے تھے۔

جب منصف خان کا قتل ہوا تو ان کا خاندان کافی کمزور ہوگیا۔ اس وقت عاطف خان چھوٹا تھا، عاطف کی ماں نے بچوں کو ایک یورپی ملک بھیج دیا تاکہ انھیں نقصان نہ پہنچایا جا سکے۔ عاطف خان نے تعلیم باہر سے حاصل کی اور پھر شادی کرکے ادھر ہی زندگی بسر کرنے لگے تاہم چند سال پہلے وہ پاکستان واپس آگئے۔

“ یہ دنوں خاندان کا طریقہ کار ہے کہ وہ بچوں کو بیرون ملک بھیج دیتے ہیں ، جب وہ بڑے ہوتے ہیں تو دشمنی اور بدلہ لینے کے لئے واپس آجاتے ہیں”

بزرگ نے بتایا کہ عاطف خان بھی چھوٹی عمر میں یتیم ہوئے تھے ، آج اس کے بچے بھی اسی عمر میں یتیم ہو گئے۔انہوں نے بتایا کہ مخالف گروہ یعنی بلند خان خاندان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔

1967 سے شروع ہونے والے دسشمنی کے اس سلسلہ نے متعدد بے گناہوں سمیت درجنوں افراد کی جان لی۔

وقار خان نے مزید بتایا کہ دشمنی اور خون ریزی سے علاقے میں خوف پھیل گیا تھا جسے روکنے کے لیے 1990 میں علاقے کے بڑے کردار ادا کرنے کے لیے آگے آئے ، انہوں نے دونوں خاندانوں کے مابین جرگے کے ذریعے صلح کرائی۔

“جرگے کے بعد تقریبا بیس سے پچیس سال دونوں فریق پرامن رہے لیکن 2012 کے بعد دشمنی نے ایک بار پھر سر اٹھانا شروع کردیا۔ انہوں نے بتایا کہ سال 2015 میں ہری پور کے علاقے میں بلند خان کے بیٹے خان جاوید کے قافلے پر اس وقت حملہ ہوا جب وہ لوکل گورنمنٹ الیکشن کے لیے مہم سے واپس آ رہے تھے ۔ حملے میں ان کے چھ سکیورٹی اہلکار جاں بحق ہوئے۔ پولیس نے عاطف اور دیگر پانچ افراد کو ایف آئی آر میں نامزد کرکے گرفتار کر لیا۔ مقدمہ انسداد دہشتگری کی عدالت میں چھ سال تک چلا بالآخر2022 میں ملزمان بری ہو گئے۔

سال 2015 میں خان جاوید کیس کی پیروی کے لیے مقامی عدالت آئے تو انھیں عدالت کے احاطے ہی میں فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا۔ اس کے الزام میں عاطف خان کے کزن جنید خان اب بھی جیل میں ہیں۔

عاطف منصف خان  نے جیل ہی سے تحصیل چیئرمین بننے کے لیے کاغذات جمع کرائے اور پھر انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔

عاطف منصف خان

گاؤں کے ایک بزرگ نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ دونوں سیاسی خاندانوں کی دشمنی سے علاقے میں ہر وقت خوب اور دہشت چھائی رہتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس دشمنی کی وجہ سے متعدد بے گناہوں سمیت پچیس سے زائد جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ جس میں اکثریت بے گناہ ہیں ، وہ سکیورٹی اہلکار ہیں یا پھر راہگیر۔

انہوں نے بتایا کہ کھلے عام دونوں جانب سے ایک دوسرے پر حملے اور قتل کیے جاتے ہیں لیکن ملزمان پھر عدالتوں سے بچ کر نکل آتے ہیں، کسی کو سزا نہیں ہوتی۔ یوں یہ سلسلہ چلا جارہا ہے۔

بزرگ نے بتایا کہ دونوں خاندانوں میں کوئی قتل ہوتا ہے تو حکومت پولیس سمیت تمام ادارے یہاں تک کہ اس علاقے کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟

حالیہ افسوس ناک واقعہ کی بابت انہوں نے بتایا کہ چار بجے کے قریب عاطف خان پر حملہ کرکے قتل کیا گیا ، اسی رات راولپنڈی میں بلند خان خاندان کے ایک شخص کو قتل کردیا گیا جس کا الزام عاطف خان خاندان پر عائد ہوا۔ بزرگ نے ناامیدی سے بھرے لہجے میں کہا کہ  بچے یتیم ہو رہے ہیں لیکن یہ خوُن ریزی جو صرف انانیت کی وجہ سے شروع ہوئی تھی، انانیت کے سبب ہی جاری ہے۔ اور اس کی زد میں زیادہ تر سکیورٹی پر مامور افراد ہی آتے ہیں ۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp