پنجاب حکومت کا ہتک عزت بل کیا ہے؟

ہفتہ 18 مئی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پنجاب حکومت کا ہتک عزت بل 2024 سرکاری اہلکاروں اور عام شہریوں کے خلاف پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے کیے جانے والے گمراہ کن دعوؤں کے خلاف ہے۔

اگر کوئی شخص کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے یا بدنام کرتا ہے تو اس کے خلاف اس بل کے تحت کارروائی ہوگی۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس بل کا مقصد بلاجواز تنقید کو روکنا ہے۔

اس بل کے تحت پنجاب میں ٹریبونل کا قیام کیا جائے گا۔ اگر کوئی شخص الیکٹرانک، پرنٹ یا سوشل میڈیا کے ذریعے کسی کو بدنام کرتا ہے یا الزامات لگاتا ہے تو متاثرہ شخص اپنی شکایت ٹریبونل میں کرسکے گا۔

ٹریبونل سربراہ کے اختیارات لاہور ہائیکورٹ کے جج کے برابر ہوں گے، ٹریبونل کو پنجاب ڈیفیمیشن ٹریبونل کا نام دیا جائے گا۔

ٹریبونل کے سامنے اگر ہتک عزت ثابت ہوجاتی ہے تو جس شخص نے الزامات یا توہین کی ہوگی اسے 30 لاکھ روپے اس شخص کو دینا ہوں گے جس کے خلاف اس نے الیکٹرانک یا سوشل میڈیا پر الزامات لگائے تھے ۔

اس قانون کے مطابق جن آئینی دفاتر کو تحفظ حاصل ہے ان میں صدر، وزیراعظم، اسپیکر، قائد حزب اختلاف، گورنر، چیف جسٹس آف پاکستان، سپریم کورٹ کے ججز، چیف جسٹس اور لاہور ہائیکورٹ کے ججز شامل ہیں۔

سینیٹ کے چیئرمین، وزیراعلیٰ، صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف، صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکر، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین اور ممبران، آڈیٹر جنرل آف پاکستان، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، چیف آف آرمی اسٹاف، چیف آف نیول اسٹاف اور چیف آف ایئر اسٹاف بھی ان میں شامل ہوں گے جن کے خلاف کوئی بھی جھوٹی خبر یا معلومات پھیلانا سنگین جرم تصور ہوگا۔

ہتک عزت کا پہلا دعویٰ میں دائر کروں گی، عظمیٰ بخاری

وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے کہاکہ ہتک عزت بل میں خصوصی ٹریبوبل بنایا جارہا ہے جو 6 ماہ میں ہتک عزت کے دعوے کا فیصلہ کرنے کا پابند ہوگا۔ اس قانون سے میڈیا پر پابندی کا تاثر غلط ہے ہم صرف جھوٹ اور پروپیگنڈے کو روکنے کی حکمت عملی بنارہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ میرے والد اور بہنوں پر الزامات لگائے گئے ہیں، ہتک عزت پر پہلا کیس خود لاؤں گی، جس پر ہتک عزت کا الزام ثابت ہوا اسے 3 ملین کا ہرجانہ ادا کرنا ہوگا۔

اپوزیشن کا ہتک عزت بل پر خصوصی کمیٹی ازسر نو تشکیل دینے کا مطالبہ

وی نیوز سے بات کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان بھچر کا کہنا تھا کہ ہمیں اس بل پر شدید تحفظات ہیں یہ بل آزادی رائے کو روکنے کے لیے لایا جارہا ہے۔

انہوں نے کہاکہ بل کی رپورٹ جس کمیٹی کے ذریعے منگوائی گئی ہے اس میں اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے اپنی مرضی سے اپوزیشن اراکین کے نام شامل کیے ہیں، یہ کمیٹی دوبارہ بنائی جائے اپوزیشن کو بغیر رپورٹ کیے یہ بل کیسے ایوان میں پیشں کرسکتے ہیں، یہ بل غیر قانونی ہو جائے گا، ہم اس بل کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔

صحافتی تنظیمیں اس کالے قانون کو نہیں مانتی

ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز ایمنڈ کے جنرل باڈی اجلاس کے دوران ملک میں آزادی صحافت کی صورتحال اور الیکٹرانک میڈیا کو درپیش مسائل کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس میں کہا گیا یہ بات یقینی بنائی جائے کہ ہتکِ عزت جیسے کسی قانون سے آزادی اظہار رائے متاثر نہ ہو۔

ایمنڈ نے کہا ہے کہ ہتکِ عزت اور فیک نیوز کے تدارک کے لیے قانون سازی کے مخالف نہیں لیکن کوئی بھی قانون بنانے سے پہلے اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جانا ضروری ہے کیونکہ اعتماد میں لیے بغیر منظور کیا گیا کوئی بھی قانون آزادی اظہار رائے کا گلا گھونٹنے کے برابر ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp