موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی مشکل معاشی حالات کے باعث وہ قومی ادارے جو سرکاری خزانے پر بوجھ ہیں، ان کی فوری نجکاری کا اعلان کیا تھا۔
پاکستان ایئر لائن (پی آئی اے) قومی خزانے پر بوجھ تصور کیے جانے والے سرکاری اداروں میں سے ایک ہے، جو کہ اس وقت 830 ارب روپے سے زیادہ کا مقروض ہے، اس قرض کی وجہ سے کئی برسوں سے پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل نہیں ہو سکا۔
مزید پڑھیں
وزیراعظم شہباز شریف نے مارچ میں بھی پی آئی اے کی نجکاری پر عملدرآمد کے لیے حتمی شیڈول طلب کیا تھا، لیکن اس کے باوجود ابھی تک نجکاری کا عمل مکمل نہیں ہو سکا، نجکاری کمیشن کے افسران کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کا عمل جاری ہے جسے مکمل کرنے کا ہدف اب بھی جون 2024 ہی ہے۔
سینیٹر ضمیر گھمرو نے سینیٹ اجلاس کے دوران پی آئی اے کی نجکاری سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کے ملازمین میں سخت تشویش پائی جاتی ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کے بعد ان کا کیا ہو گا؟۔
وفاقی وزیرِ براہ نجکاری عبدالعلیم خان نے بتایا کہ نجکاری مکمل ہونے کے بعد بھی ملازمین کم ازکم 3 سال تک نوکری کرتے رہیں گے بحرحال پی آئی اے نجکاری کا عمل شروع ہو چکا ہے جس کے لیے بولی ٹیلی ویژن پر لائیو دکھائی جائے گی۔
عبدالعلیم خان نے بتایا کہ پی آئی اے کے اس وقت صرف 18 جہاز چل رہے ہیں، ملازمین کی تعداد بھی بہت زیادہ نہیں ہے، اس کے باوجود ملازمین اور افسران کی تنخواہیں ادا کرنا حکومت کے اور ادارے کے لیے انتہائی مشکل ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب حکومت سالانہ 100 ، 100 ارب روپے پی آئی اے کو نہیں دے سکتی، اس لیے حکومت 50 فیصد شیئر فروخت کرے گی اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت پی آئی اے کو چلائے گی۔
اس سے قبل سینیٹ اجلاس کے دوران پی آئی اے کی نجکاری سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس پر گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی سینیٹر قراۃ العین مری نے کہا کہ اس وزیر پر آرٹیکل 6 کیوں نہیں لگایا گیا جس نے کہہ دیا تھا کہ پی آئی اے کے پائلٹ جعلی ہیں، سب کو معلوم ہے کہ اس سے پی آئی اے کا بہت نقصان ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پی آئی اے ایک ایسی ایئر لائن تھی کہ جس نے ماضی میں کئی بڑی ایئر لائنز کو کھڑا کیا، پی آئی اے میں ملازمین کی تعداد دیگر ممالک کی ایئر لائنز سے زیادہ مختلف نہیں، کچھ ایئر لائنز کے ملازمین اس سے بھی زیادہ ہیں،اگرنجکاری کرتے ہیں تو پھر نجکاری کے عمل کو صاف و شفاف ہونا چاہیے۔