فیمینائزنگ کلائمیٹ جسٹس (Feminizing Climate Justice) سے مراد موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات میں صنفی نقطہ نظر کو شامل کرنا ہے۔ چونکہ خواتین موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں اس لیے فیمینائزنگ کلائمیٹ جسٹس کا مقصد متعلقہ پالیسیوں اور اقدامات میں خواتین کی فعال شرکت کو یقینی بنانا اور ان کی رائے کو اہمیت دینا ہے تاکہ خواتین کی سماجی، اقتصادی اور سیاسی محرومیوں اور کمزوریوں کو دور کیا جا سکے اور موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے انکی استعداد کو بڑھایا جا سکے۔
موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کا زیادہ تر بوجھ عورتیں اور کم عمر لڑکیاں اٹھاتی ہیں۔ ماحولیاتی انصاف(Climate Justice) میں خواتین کی شمولیت ایک اہم عالمی موضوع ہے جس پر پاکستان میں فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے، جہاں خواتین اور لڑکیاں موسمیاتی تبدیلی کے شدید منفی اثرات کا غیرمتناسب طور پر سامنا کرتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی کے فریم ورک کنونشن (UNFCCC) کے مطابق، خواتین خاص طور پر وہ جوغربت کا شکار ہیں، شدید موسم اور موسمیاتی حادثات کا زیادہ بوجھ برداشت کرتی ہیں۔ 2022 کا تباہ کن سیلاب، جس نے 16 لاکھ سے زیادہ تولیدی عمر کی خواتین اور تقریباً 130,000 حاملہ خواتین کو متاثر کیا، پاکستان میں اس مسئلے کی شدت کو اجاگرکرتا ہے۔
پاکستان اپنے متنوع جغرافیہ کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کا سامنا کرنے والے ممالک کی فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے متواتر خشک سالی، گلیشیئرز کا پگھلاؤ، شدید گرمی کی لہریں، شدید بارشوں کا بے ترتیب موسم اور بڑھتا ہوا درجہ حرارت خطے میں موجود حیات اور املاک کے لیے خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ اس تناظر میں جسمانی، ثقافتی، سماجی اور اقتصادی کمزوریوں کی وجہ سے مردوں کے مقابلے میں عورتوں پر قدرتی آفات کے اثرات نمایاں طور پر مختلف اور گھمبیر ہیں۔
سیلاب پانی کے ذرائع کو آلودہ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں اضافہ ہوتا ہے جو زیادہ تر خواتین اور بچوں کو متاثر کرتی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے زراعت پر منفی اثرات کے باعث غذائی عدم تحفظ میں اضافہ ہوتا ہے جس سے خواتین اور لڑکیاں غیر متناسب طور پر متاثر ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ پانی کی کمی اور شدید موسموں کا سامنا کرتے ہوئے خواتین ذہنی دباؤ کا شکار ہوتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بدلتے ہوئے موسمی حالات کی وجہ سے حشرات سے پیدا ہونے والی بیماریاں مثلا ملیریا، ڈینگی وغیرہ، زیادہ تر خواتین اور بچوں کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں زچگی میں اموات کی شرح (186 اموات فی 100,000 زندہ پیدائش) خطے میں تشویشناک حد تک بلند ہے، لڑکیوں میں غذائیت کی کمی کی بلند شرح (5 سال سے کم عمر بچوں میں تقریباً 48 فیصد) کا بھی موسمیاتی تبدیلی سے گہرا تعلق ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان میں پانی کی کمی کا شدت اختیار کرتا بحران مستقبل قریب میں کسی قیامت سے کم نہیں ہوگا۔ حالیہ سروے کے مطابق تقریباً 8 کروڑ پاکستانیوں کو محفوظ پینے کے پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ دیہاتی خواتین جو بنیادی طور گھریلو استعمال کے لیے پانی کی ترسیل کی ذمہ دار ہیں، انہیں خشک سالی کے دوران طویل فاصلے طے کرنے پڑتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ صاف پینے کے پانی تک ناکافی رسائی زچگی کی اموات کی بلند شرح اور لڑکیوں میں غذائیت کی کمی میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔
پاکستان کی کل آبادی کا تقریباً نصف ہونے کے باوجود خواتین کی موسمیاتی تبدیلی اور موسمیاتی حادثات سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کی پالیسیوں کی تشکیل میں نمائندگی بہت کم ہے۔ پالیسیوں کی تشکیل میں خواتین کی شمولیت اور نمائیندگی کا فقدان ان پالیسیوں کو مؤثر بنانے میں رکاوٹ ہے جو ماحولیاتی چیلنجوں میں خواتین کی مخصوص کمزوریوں اور ضروریات کو پورا کرنے میں مددگار ہیں۔
اس لیے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے تشکیل دی جانے والی پالیسیوں میں خواتین کی رائے کو سننا اور ان پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے تاکہ موسمیاتی تبدیلی اور موسمیاتی حادثات سے نمٹنے کے لیے زیادہ منصفانہ اور پائیدار حل تلاش کیے جا سکیں۔ فیصلہ سازی کی تمام سطحوں پر خواتین کی شرکت کو بڑھانا نہ صرف خواتین کی موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے اور اس کے خلاف مستحکم ہونے میں مدد فراہم کرے گا، بلکہ ملکی سطح پر موسمیاتی حادثات کے خطرے سے دوچار آبادیوں کی استعداد بھی بڑھے گی۔
2022 میں پاکستان کا پہلا موسمیاتی تبدیلی کا صنفی ایکشن پلان (Climate Change Gender Action Plan) پنجاب میں متعارف کروایا گیا۔ یہ ایکشن پلان حکومت کی پالیسی سازی میں رہنمائی کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کے خطرات میں گھری آبادیوں اور افراد، خاص طور پر خواتین کی نشاندہی اورموسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے اور اس کے خلاف مستحکم ہونے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
ایکشن پلان کا مقصد خطرات میں گھری آبادیوں اور افراد کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے متعلق آگاہی حاصل کرتے ہوئے موسمیاتی حادثات سے بچاؤ اور تعمیرِ نو کے عمل کو مظبوط اور مؤثر بنا سکیں۔ یہ ایکشن پلان توانائی، نقل و حمل، زراعت، خوراک کی فراہمی، پانی، آفات کے انتظام و انصرام، جنگلات اور حیاتیاتی تنوع، اور مربوط ساحلی انتظام جیسے شعبوں میں طویل المدتی منصوبوں کے ذریعے بہتری لائے گا۔
پاکستان میں نیشنل ایڈاپٹیشن پلان (National Adaptation Plan-2033) میں متعارف کروایا گیا جس کا ایک مقصد صنفی مساوات کو فروغ دینا اور خواتین کو ماحولیاتی موافقت کی کوششوں میں تبدیلی کے فعال ایجنٹ بننے کے لیے بااختیار بنانا ہے۔
صنفی حساس موسمیاتی پالیسیوں کو موثرطور پر فروغ دینے اور ان پر عمل درآمد کرنے کے لیے خواتین کا لیڈرشپ رول میں فعال ہونا نہایت اہم ہے۔ پاکستان اوربالخصوص خواتین کے لیے یہ امر خوش آئند اور حوصلہ افزا ہے کہ پنجاب کی تاریخ کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ محترمہ مریم نواز خواتین کی فلاح کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ خاتون وزیراعلیٰ ہونے کے ناطے وہ جینڈر ایکشن پلان اور نیشنل ایڈاپٹیشن پلان میں خواتین کی فلاح سے متعلق تجویز کردہ اقدامات پر عمل درآمد کروانے کے لیے مضبوط پوزیشن میں ہیں۔ عورتوں کی فلاح اور ترقی سے متعلق ان کا عزم ایک طاقتور محرک کے طور پر کام کر سکتا ہے اور دوسرے صوبوں کو اسی طرح کے اقدامات اپنانے کی ترغیب دے سکتا ہے۔
میڈیا بھی ماحولیاتی انصاف میں خواتین کی شمولیت کو فروغ دینے میں نہایت اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ میڈیا کو خواتین کو درپیش منفرد مشکلات کو تواتر سے اجاگر کرنا چاہیے، پسماندہ طبقات بالخصوص عورتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے حکومتی اداروں پر دباؤ بڑھانا چاہیے کہ وہ انہیں موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے اور اس کے خلاف مستحکم ہونے میں ہرممکن مدد فراہم کریں۔ میڈیا موسمیاتی تبدیلی سے متعلق حکومتی پالیسیوں پر اثرانداز ہو کر ان میں بہتر تبدیلیاں لا سکتا ہے تاکہ جامع ماحولیاتی انصاف کے فروغ کے لیے سماجی تعاون کو موثر طور پر متحرک کیا جاسکے۔
پسماندہ طبقات بالخصوص عورتوں کی رائے کو موثر طور پر اجاگر کرنے کے لیے حکومت، نجی شعبے اور سول سوسائٹی کے درمیان موثر شراکت داری ضروری ہے۔ یہ شراکت داری اس بات کو یقینی بنا سکتی ہے کہ موسمی تبدیلی سے متعلق پالیسیوں میں پسماندہ طبقات کی رائے کو بھی شامل کیا جائے اور ان پر توجہ دی جائے۔
موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے اور اس کے خلاف خود کو مستحکم کرنے کی حکمت عملیوں میں صنفی تحفظات کو ضم کرنے میں ناکامی کے اثرات ملک کی مجموعی ترقی پر بھی پڑیں گے۔ ماحولیاتی انصاف کو خواتین کی شمولیت کے ساتھ ترجیح دینا نہ صرف موسمیاتی تبدیلی کے فوری اثرات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے بلکہ پاکستان کی پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ یہ نقطہ نظر اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کوئی بھی عورت فلاح اور ترقی کے اقدامات سے استفادہ حاصل کرنے سے محروم نہ رہ جائے۔ موسمیاتی حکمت عملیوں میں صنفی تحفظات کو شامل کرنے میں ناکامی پاکستان کی موسمیاتی تبدیلیوں سے نبردآزما آبادیوں کی فلاح و بہبود اور مجموعی ترقی کے لیے سنگین نتائج کا سبب بن سکتی ہے۔