سابق وزیراعظم عمران خان نیب ترمیمی آرڈیننس کے خلاف اپیل میں جمعرات کو سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے روبرو پیش ہوئے جہاں یہ ان کی مسلسل دوسری پیشی تھی۔
مزید پڑھیں
گزشتہ سماعت کے برعکس جمعرات کو ہونے والی سماعت میں کچھ تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ عمران خان کو بات کرنے کا موقع ملنے کے ساتھ ساتھ کچھ عدالتی ماحول میں بھی تبدیلی محسوس کی جارہی تھی۔
عمران خان اور چیف جسٹس کا مکالمہ
سماعت کے اختتام پر سابق وزیراعظم عمران خان اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے درمیان وقفے وقفے سے مختصر مکالمے ہوئے۔ وکیل مخدوم علی خان نے جب اپنے دلائل مکمل کیے تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تمام فریقین کے وکلا سے استفسار کیا کہ آپ کو دلائل کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا، جب سب وکلا نے جواب دیا تو سب سے آخر میں چیف جسٹس نے عمران خان کو انگریزی میں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مسٹر خان! کیا آپ ہمیں سن سکتے ہیں؟ آپ کو کتنا وقت درکار ہوگا؟
عمران خان نے بولنا شروع کیا تو ان کی آواز نہیں آرہی تھی جس پر چیف جسٹس نے اس جانب عملے کی توجہ دلائی۔ اس دوران بینچ میں شامل چیف جسٹس کے دائیں اور بائیں جانب بیٹھے ججز سامنے لگی اسکرینز کی طرف مڑ گئے جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سامنے لگے کیمرے میں دیکھ رہے تھے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پھر بولے معذرت آپ کی آواز نہیں آرہی تھی ہم آپ کو نہیں سن پائے، کیا آپ خود دلائل دیں گے یا وکیل کے ذریعے دلائل دیں گے؟ اور آپ کو کتنا وقت درکار ہوگا؟
سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ’مائی لارڈ میں اس وقت قید تنہائی میں ہوں، مجھے میری لیگل ٹیم سے ملنے نہیں دیا جارہا ہے، میں چاہتا ہوں اس کیس کے حوالے سے اپنی لیگل ٹیم سے مشاورت کروں‘۔
اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے تو کوئی وکیل نہیں کیا، اگر آپ لیگل ٹیم کے ذریعے دلائل دیں گے پھر تو آپ کی ضرورت ہی نہیں۔ عمران خان پھر بولے ’نہیں میں واضح کر دیتا ہوں کہ مجھے دلائل کے لیے اپنی لیگل ٹیم سے مشاورت کرنی ہے، یہ سپر قومی مفاد کا کیس ہے‘۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اچھا آپ کس سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں؟ ہم آرڈر کر دیتے ہیں۔
عمران خان نے جواب میں کہا کہ خواجہ حارث سے پھر چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے کہا کہ آپ جاکر ملاقات کر لیں لیکن ساتھ پوری فوج نہ لے کر جائیں 2،3 وکلا ساتھ لے جائیں۔
اس دوران عمران خان کچھ بات کرنا چاہ رہے تھے اور انہوں نے ہاتھ کھڑا کر کے اشارہ بھی کیا لیکن چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس دوران کیس آئندہ تاریخ پر مقرر کرنے کے لیے مشاورت کر رہے تھے۔
اس وقت تک چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سامنے لگی اسکرین جس پر عمران خان نظر آرہے تھے، کی طرف نہیں دیکھا اور وہ مسلسل روسٹرم کی طرف ہی دیکھ رہے تھے اور عملے سے مشاورت کرہے تھے۔
اس دوران روسٹرم پر کھڑے ایک وکیل نے کہا کہ درخواست گزار کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ جس پر عمران خان کا مائیک کھولا گیا تو انہوں نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’چیف جسٹس صاحب آپ سے بات کرنے کا موقع کم ہی ملتا ہے، میں اس موقعے پر آپ سے ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں۔
عمران خان نے مزید کہا کہ ’ہماری آپ کے پاس 2 درخواستیں زیر التوا ہیں، ایک انسانی حقوق سے متعلق ہے کہ کس طرح 9 مئی کی آڑ میں ہماری جماعت کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا، ہم چاہتے ہیں کہ اس پر جوڈیشل کمیشن بنے اور دوسری درخواست 8 فروری سے متعلق ہے جس میں ملک کا سب سے بڑا ڈاکا۔۔۔‘ تاہم ابھی ان کا جملہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ چیف جسٹس انہیں روکتے ہوئے فوراً بولے کہ آپ کا وکیل کون ہے۔ عمران خان نے بتایا کہ حامد خان ہمارے وکیل ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان کافی سینیئر وکیل ہیں ہم ان کو سن لیتے ہیں، ہم یہ معاملہ دیکھ لیں گے۔ عمران خان مزید کچھ بات کرنا چاہ رہے تھے لیکن مائیک پھر بند کر دیا گیا اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تحریری آرڈر لکھوانا شروع ہوگئے۔
اس دوران عمران خان مسلسل ہاتھ کھڑا کر کے بات کرنے کی اجازت مانگ رہے تھے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ خواجہ حارث سے عمران خان سے ملاقات کے حوالے سے کچھ چیزیں طے کر رہے تھے تو پھر عمران خان کا مائیک کھولا گیا اور انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب اڈیالہ جیل میں ون ونڈو آپریشن ہے، یہاں کے معاملات ایک کرنل کنٹرول کرتا ہے وہ ملاقات کرنے کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں آپ کے سامنے آرڈر کروں گا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ حارث کی ملاقات کا بندوبست کیا جائے اور اس میں کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہیے۔ چیف جسٹس نے خواجہ حارث کو کہا کہ آپ جب جانا چاہتے ہیں جیل جائیں اٹارنی جنرل کو بتا دیں، ان کو میسج کردیں تاکہ آپ کے پاس ثبوت بھی موجود ہو۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس عدالت میں پیش ہونا چاہتے ہیں تو اس ملاقات میں کوئی خلل نہیں آنا چاہیے۔
چیف جسٹس یقینی بنائیں کہ خواجہ حارث قید نہ کرلیے جائیں، جسٹس اطہر من اللہ
چیف جسٹس کی اٹارنی جنرل کو ہدایت دینے کے موقعے پر جسٹس اطہر من اللہ نے لقمہ دیا کہ یہ بھی یقینی بنائیں کہ خواجہ حارث کو کوئی قید ہی نہ کر لے۔ اس پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے اور عمران خان بھی خوب ہنسے۔
چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے کہا کہ آپ جس دن اور جتنی مرتبہ ملاقات کے لیے جانا چاہتے ہیں جائیں اٹارنی جنرل آپ کی معاونت کریں گے۔
کمرہ عدالت کا ماحول کیا تھا؟
جمعرات کو سابق وزیراعظم عمران خان اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے۔ جس کمرے میں عمران خان بیٹھے تھے گزشتہ سماعت کی نسبت اس کمرے میں کچھ تبدیلیاں بھی تھیں۔ عمران خان کے عقب میں بائیں جانب گزشتہ سماعت میں موجود کرسی اٹھادی گئی تھی، عمران خان کے سامنے پانی کی چھوٹی بوتلوں کے بجائے ڈیڑھ لیٹر کی بڑی بوتل موجود تھی۔
عمران خان نے گہرے نیلے رنگ کی شرٹ پہنی ہوئی تھی اور آستینیں چڑھائی ہوئی تھیں۔ عمران خان کے ہاتھ میں انگوری رنگ کی تسبیح موجود تھی۔ کچھ وقت کے لیے وہ تسبیح کے دانے پھیرتے ہوئے کچھ پڑھتے بھی دکھائی دیے، کبھی وہ تسبیح کے اوپری سرے کو انگوٹھے سے گھماتے اور کبھی تسبیح کو کلائیوں پر پھیر کر ہاتھ چہرے پر رکھ کر سماعت سنتے۔
گزشتہ سماعت میں عمران خان سامنے سے آنے والی روشنی سے بظاہر تنگ ہوتے دکھائی دے رہے تھے لیکن آج وہ مسئلہ درپیش نہیں تھا تاہم جس کرسی پر عمران خان کو گزشتہ سماعت پر بٹھایا گیا تھا آج بھی وہی کرسی ان کے بیٹھنے کے لیے دستیاب تھی جس کی وجہ سے وہ مسلسل اپنے بیٹھنے کا انداز تبدیل کرتے، بظاہر کرسی زیادہ آرام دہ نہیں تھی۔
عمران خان کے سامنے کچھ کاغذات موجود تھے۔ ایک موقعے پر انہوں نے عینک اپنے مخصوص انداز میں پہن کر کاغذ پڑھے اور ہاتھ میں تھامے قلم سے کچھ نوٹس بھی تحریر کیے۔
چیف جسٹس اور جسٹس اطہر من اللہ کے درمیان اختلاف رائے پر عمران خان کی مسکراہٹ
چیف جسٹس کی جانب سے وکیل مخدوم علی خان سے نیب آرڈیننس کے ذریعے ریمانڈ 14 روز سے بڑھا کر 40 روز کرنے کے سوال پر عمران خان خوب ہنسے۔ سماعت کے آغاز میں جب خیبر پختونخوا حکومت کی درخواست پر سماعت براہ راست دکھانے سے متعلق دلائل جاری تھے اور جسٹس اطہر من اللہ اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ میں اختلاف رائے کھل کر سامنے آیا تو عمران خان زیر لب مسکراتے نظر آئے۔
گزشتہ سماعت کے برعکس سابق وزیراعظم عمران خان زیادہ ہشاش بشاش اور پر اعتماد نظر آئے اور ان کے سامنے موجود کاغذوں اور کچھ نوٹس تحریر کیے جانے سے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ تیاری کر کے آئے ہیں۔
سماعت کے اختتام پر عمران خان جب اپنی کرسی سے اٹھے تو ان کے چہرے پر خوشی نمایاں تھی اور وہ بظاہر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سامنے اپنی زیر التوا درخواستوں سے متعلق بات کرنے پر مطمئن بھی دکھائی دے رہے تھے۔