انسداد دہشتگردی عدالت سرگودھا کے جج کے آئی ایس آئی سے ملاقات نہ کرنے کے معاملے پر از خود نوٹس کی سماعت کے بعد چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
مزید پڑھیں
دوران سماعت چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان کی جانب سے استفسار پر آئی جی پنجاب پولیس عثمان انور کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی اہم اور عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے، عدالت میں تھریٹ الرٹس سے متعلق انتہائی حساس اور خفیہ رپورٹ جمع کرائی گئی ہے۔
وزارت دفاع اور داخلہ کے ساتھ پولیس کمیٹی کی تشکیل کی استدعا
آئی جی پولیس کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان بولے؛ ہمارے جوڈیشل افسر نے آئی ایس آئی کی جانب سے ملاقات کا میسج آیا ہے، آپ نے وہ شخص ڈھونڈنا ہے جس نے جج سے ملنا تھا۔
اس موقع پر آئی جی پولیس عثمان انور نے عدالت سے استدعا کی کہ وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کے ساتھ پولیس کی کمیٹی تشکیل دیدی جائے، سرگودھا کے اس علاقے کی جیو فینسگ کی ضرورت ہے جہاں جج کو کال موصول ہوئی، اسی طرح کال ڈیٹا ریکارڈ بھی درکار ہوگا، یہ بھی دیکھنا ہے جج کو کال واٹس ایپ پر یا کسی اور طریقے سے کال کی گئی ہے۔
جوڈیشل کمپلیکس سرگودھا کیوں بند کیا؟
آئی جی پنجاب عثمان انور نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کو بھکر، میانوالی اور سرگودھا کے جوڈیشل کمپلیکس سے متعلق تھریٹ ملے تھے، چیف جسٹس بولے؛ ہر بندے کو قانونی تحفظ حاصل ہے، تھریٹ ہے یا نہیں ہے آپ یہ بتائیں سرگودھا کی عدالت میں وکلا کو جانے سے کیوں روکا گیا، وہ قانون بتا دیں جس کے ذریعے تھریٹ کے نام پر لوگوں کو بنیادی حقوق سے دور رکھا جائے۔
عدالتی استفسار پر ڈی پی او سرگودھا پولیس نے بتایا کہ سرگودھا جوڈیشل کمپلیکس کو لاحق تھریٹ الرٹ پر وہاں سرچ اینڈ سوئیپ آپریشن کیا گیا، جس پر چیف جسٹس بولے؛ آپ نے یہ کام صرف اس لیے کیا کہ انسداد دہشت گردی عدالت جج کے پاس جو مقدمات زیر سماعت ہیں وہ ان پر کارروائی نہ کر سکیں۔
آئی جی پنجاب پولیس کی سرزنش
آئی جی پنجاب پولیس کے بار بار بولنے پر چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کی سرزنش کرتے ہوئے انہیں خاموش رہنے کی ہدایت کی، چیف جسٹس بولے؛ کیوں نہ سرگودھا جوڈیشل کمپلیکس بند کرنے پر پولیس کے خلاف توہینِ عدالت کی کاروائی شروع کی جائے، ڈی پی اور سرگودھا کا موقف تھا کہ وہاں ہجوم تھا اور سیکیورٹی تھریٹ کے پیش نظر جوڈیشل کمپلیکس بند کیا گیا۔
’پورا پاکستان بند کردیں‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تھریٹ الرٹ تو پورے پاکستان میں ہیں، پھر سب کچھ بند کر دیں، آپ سے راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت کے جج مینیج نہیں ہوئے تو آپ نے ان کے ساتھ یہی کیا، جس پر آئی جی پنجاب پولیس بولے؛ اس سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے، ہم نے ایک دوست ملک سے بھی انٹری بند کی ہوئی ہے کیوں کہ وہاں سے تھریٹ الرٹ ہے۔
چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے کہا کہ جہاں آپ کی مرضی ہوتی ہے تھریٹ لگا کر کارروائی کر لیتے ہیں، سرگودھا عدالت کے باہر فائرنگ کے معاملے پر کیا اپ ڈیٹ ہے، جس پر پنجاب پولیس چیف نے بتایا کہ ہمیں وہاں سے 17 گولیوں کے خول ملے ہیں، معاملہ انسداد دہشت گردی محکمہ کے سپردکیا ہے۔
’آپ کا حساب انہوں نے لینا ہے، جنہیں آپ خوش کر رہے ہیں‘
گرفتاری سے متعلق عدالتی استفسار پر آئی جی پنجاب پولیس نے عدالت سے جیوفینسنگ کی اجازت طلب کرتے ہوئے کہا کہ جیو فنسنگ کے آپ کو رپورٹ دے دیتے ہیں، انسداد دہشت گردی عدالت سرگودھا کے جج کے گھر کا میٹر توڑنے کا ذکر آنے پر آئی جی پنجاب پولیس کا کہنا تھا کہ انہوں نے چیک کرا لیا ہے، اس حوالے سے کوئی درخواست نہیں ملی۔
چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئی جی صاحب یہ آپ کے بس کا معاملہ نہیں، جس پر آئی جی عثمان انور بولے؛ اس کیس میں عدالت کا حکم چاہیے تاکہ ہمیں وفاقی حکومت سے جیو فینسنگ کی اجازت ملے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سرگودھا کے جج صاحب نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ان کی حفاظت اللہ نے کرنی ہے، وہ اپنے کام سے نہیں رکے انہوں نے کہا ہے کہ وہ تھریٹس سے نہیں ڈرتے، ڈی پی او سرگودھا کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ کا حساب تو انہوں نے لینا ہے جنہیں آپ خوش کر رہے ہیں۔
’آئی جی صاحب، عدالتوں کا مذاق نہ بنائیں‘
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے پولیس چیف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آئی جی صاحب عدالتوں کا مذاق نہ بنائیں، 9 مئی والے بندے اندر ہیں، کور کمانڈر کے گھر پر حملہ ہوا کاروائی ہو گئی،وہ تو چلیں عدالتوں نے فیصلے کرنے ہیں، صوبے کی سب سے بڑی عدالت پر حملہ ہوا لیکن پولیس نے ایک شخص کو بھی مقدمے میں نامزد نہیں کیا۔
چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان کا کہنا تھا کہ جو جج پسند نہیں آتا، ان کے خلاف سوشل میڈیا پر منفی مہم شروع کردی جاتی ہے، درخواست آ جاتی ہے پروگرام ہوناشروع ہو جاتے ہیں۔
از خود نوٹس پر فیصلہ محفوظ
لاہور ہائیکورٹ نے سرگودھا کی انسداد دہشت گردی عدالت کے معاملات میں ایجنسی کی مبینہ مداخلت پر لیے گئے از خود نوٹس پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔