سپریم کورٹ کا 13 رکنی فل کورٹ بینچ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق مقدمے کی سماعت کررہا ہے۔ یہ مقدمہ اس لیے بہت اہم ہے کیونکہ اگر سنی اتحاد کونسل کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں مل جاتی ہیں تو اس سے پارلیمنٹ میں حکومتی اتحاد کی دوتہائی اکثریت ختم ہوجائے گی۔
مزید پڑھیں
ایسی صورت میں کسی بھی آئینی ترمیم کے لیے حکومتی اتحاد کو سنی اتحاد کونسل کے ممبران اسمبلی کی حمایت درکار ہوگی جس سے ممکنہ طور پر ملک میں سیاسی تناؤ شدت اختیار کرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ پنجاب اسمبلی اور سینیٹ میں بھی سنی اتحاد کونسل کے اعداد میں ممکنہ اضافہ ہوگا۔
یہ بات یقینی ہے کہ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں حکومتی اتحاد کو نہیں دی جا سکتیں؛ سینیٹر علی ظفر
پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اور نامور وکیل بیرسٹر علی ظفر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک بات تو یقینی ہے کہ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں حکومتی اتحاد کو تو نہیں دی جا سکتیں۔ فیصلہ صرف اس بات کا ہونا ہے کہ آیا یہ نشستیں سنی اتحاد کونسل کو ملتی ہیں یا نہیں۔ چونکہ آئینی طور پر یہ گیپ رکھا نہیں جا سکتا اور پارلیمان کا مکمل ہونا ضروری ہے، اس لیے ہمیں امید ہے کہ یہ نشستیں سنی اتحاد کونسل کو مل سکتی ہیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ فرض کریں اگر فیصلہ سنی اتحاد کونسل کے حق میں آتا ہے تو اس کا سب سے پہلا اثر خیبرپختونخوا اسمبلی پر پڑے گا جہاں مخصوص نشستوں کی وجہ سے سینیٹ کا الیکشن رک گیا تھا۔ وہاں سینیٹ کا الیکشن ہوگا اور ممکنہ طور پر سنی اتحاد کونسل کے وہاں سے سینیٹر منتخب ہوسکیں گے۔
دوسرا اثر پنجاب اسمبلی پر پڑے گا، جہاں سپریم کورٹ فیصلے کے بعد مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق اور پاکستان پیپلز پارٹی کو ملنے والی اضافی مخصوص نشستیں معطل کر دی گئی تھیں۔ وہ نشستیں سنی اتحاد کونسل کو مل جائیں گی۔ اس کے بھی کچھ اثرات سینیٹ انتخابات پر پڑ سکتے ہیں۔اور قومی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کے ممبران کی تعداد میں اضافے کے سبب حکومت آئینی ترامیم نہیں کر پائے گی۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ نشستیں سنی اتحاد کونسل کو ملیں نہ ملیں لیکن ایک بات طے ہے کہ حکومتی اتحاد کو نہیں مل سکتیں۔
سنی اتحاد کونسل کو 22 سے 23 مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں؛ فیصل صدیقی ایڈووکیٹ
سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اگر ہماری درخواست منظور ہوجاتی ہے تو اس سے سنی اتحاد کونسل کو قومی اسمبلی میں 22 سے 23 مخصوص نشستیں مل جائیں گی۔
اس کا اثر یہ پڑے گا کہ پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں پر مشتمل حکومتی اتحاد پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کھو دے گا۔فیصلہ ہمارے حق میں آنے سے سنی اتحاد کونسل حکومت بنانے کی پوزیشن میں تو نہیں آئے گا لیکن حکومت دو تہائی اکثریت کھو کر آئینی ترامیم کرنے کی صلاحیت کھو دے گی، تاہم سپریم کورٹ سے کیا فیصلہ آئے گا، اس کے بارے میں بات کرنا قبل از وقت ہے۔
ہمارا اور ن لیگ کا موقف مشترک ہے؛ سینیٹر کامران مرتضٰی
جمیعت علمائے اسلام ف کے سینیٹر اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضٰی ایڈووکیٹ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں جے یو آئی نے پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی طرح سے براہ راست فریق بننے کی درخواست نہیں دی تھی لیکن سپریم کورٹ کی جانب سے جے یو آئی کو اپنا موقف پیش کرنے کے لیے کہا گیا۔
ہمارا موقف مسلم لیگ ن کے ساتھ مشترک ہے کہ چونکہ سنی اتحاد کونسل نے الیکشن ایکٹ کے تحت مخصوص نشستوں کے لیے اپنے امیدواروں کی فہرستیں جمع نہیں کروائی تھیں اس لیے انہیں یہ نشستیں نہیں دی جا سکتیں۔ کامران مرتضٰی نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ ن اور جے یو آئی ف کو اضافی مخصوص نشستیں ملیں تو ہمیں اس سے فائدہ ملا۔
انہوں نے کہا کہ اگر ممکنہ طور پر فیصلہ سنی اتحاد کونسل کے حق میں آتا ہے تو اس سے ان کی پارلیمنٹ میں 22 سے 23 مخصوص نشستوں میں اضافہ ہوگا جس سے حکومتی اتحاد دو تہائی اکثریت کھو دے گا اور ساتھ ہی ساتھ خیبر پختونخوا میں سینیٹ الیکشن کا انعقاد ممکن ہو پائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں ن لیگ کے پاس اکثریت ہے اور وہاں مخصوص نشستیں ختم ہونے سے اتنا فرق نہیں پڑے گا، لیکن قومی اسمبلی میں اس کے واضح اثرات مرتب ہوں گے۔