پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن پارلیمنٹ آصفہ بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے اپنا پہلا خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے آج اس ایوان سے مخاطب ہونے میں انتہائی دلی مسرت ہو رہی ہے، جس کا میرے دادا، میری والدہ، والد اور بھائی بھی حصہ رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
اتوار کو قومی اسمبلی میں بجٹ سیشن کے دوران پارلیمنٹ سے اپنے پہلے خطاب میں آصفہ بھٹو زرداری نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی بے حد شکر گزار ہوں، میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، صدر آصف علی زرداری اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں اور عوام کی شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے یہاں اس ایوان میں پہنچایا، عوام اور اس ایوان سے مخاطب ہونے کا موقع فراہم کیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے رواں سال کا بجٹ ایک ایسے وقت پیش کیا ہے جب ہم بے شمار چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں، ہمارے عوام کو موسمیاتی تبدیلیوں، آسمانی آفات، سیلاب، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔
پاکستانی ہونے کے ناطے ہم سب کو اس بجٹ سے بے شمار امیدیں وابستہ تھیں، لیکن پوچھنا چاہتی ہوں کہ اس بجٹ سے عوام کی توقعات پوری ہوئی ہیں؟، کیا یہ بجٹ عوامی امنگوں کے مطابق ہے؟، ہمیں عام آدمی کی بہتری کے لیے آگے بڑھنا ہے، کسانوں کو کبھی سیلاب تو کبھی گندم درآمد کا مسئلہ ہے، ہمیں کسانوں کو ریلیف دینا ہو گا۔ پاکستان کے عوام اس سے بہتر بجٹ کے مستحق ہے۔
آصفہ بھٹو زرداری نے کہا کہ اس بڑھ کر ہمیں مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا ہوں گا، ورکنگ کلاس کو ریلیف دینا ہوگا۔ بجٹ میں ریلیف ہمارے معاشرے اور عوام کے لیے انتہائی اہم ہوتا ہے، جس میں ایک مزدور، غریب، کسانوں اور ورکنگ کلاس کو ریلیف دیا جانا ہوتا ہے، بجٹ اس لیے نہیں ہوتا کہ امیر کو مزید امیر تر بنا دیا جائے اور غریب کو مزید غریب تر کر دیا جائے۔
آصف بھٹو زرداری نے کہا کہ بجٹ کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ امیر اور غریب کےدرمیان تفریق کو ختم کر دیا جائے لیکن میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ آیا اس بجٹ میں ان تمام مسائل کو ایڈریس کیا گیا ہے؟
پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا پاکستان کے عوام اس بجٹ کے مستحق ہیں، پاکستان کے عوام اس سے بہتر کے مستحق ہیں، ہمیں اپنے شہریوں کے لیے اس سے زیادہ بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
آصفہ بھٹو نے کہا کہ حال ہی میں پارلیمنٹ سے خطاب میں صدر مملکت آصف علی زرداری نے ملک میں یکجتہی کی بات کی ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ یقیناً اس وقت ملک کو اسی ایک چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
میں سمجھتی ہوں کہ تقسیم کی سیاست سے ہم ملک کو نقصان پہنچائیں گے، جب ملک میں مسائل کے حل کے لیے اختلافات کو تشدد کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کی جائے گی، اختلافات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا تو مسائل حل ہونے کے بجائے مزید بڑھیں گے۔ امید کرتی ہوں کہ ہم ملک میں بہت جلد ایک نئے سیاسی کلچرآغاز ہوتا ہوا دیکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ممبران پارلیمنٹ کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے تقسیم کی اس سیاست کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی اور مل کر ملک کو ترقی کی جانب گامزن کرنا ہوگا۔