گزشتہ روز ایک کیس میں پولیس کی تحویل سے گاڑی لینے کے لیے وکیل اور مدعی مقدمہ کراچی کے تھانہ گلستان جوہر پہنچے، پولیس نے وکلا کو گاڑی دینے سے صاف انکار کردیا، جس کے باعث وکیل اور ایس ایچ او کے مابین تلخ کلامی ہوئی، جس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے تھانے میں وکلا کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
مزید پڑھیں
وکلا نے 2 بار تھانے کے باہر احتجاج رکارڈ کرایا، احتجاج کے دوران وکلا نے تھانے کے ایس ایچ او کے خلاف مقدمہ درج کرنے مطالبہ کیا گیا۔
وکلا کو احتجاج کیوں کرنا پڑا؟
وکیل قادر راجپر کے مطابق وہ ایک گاڑی لینے مدعی مقدمہ کے ہمراہ تھانے پہنچے اور گاڑی تحویل میں لینے پر تنازع ہوا، ان کا کہنا تھا کہ وہ جوڈیشل مجسٹریٹ ایسٹ سے گاڑی ریلیز کا آرڈر لے کر تھانے پہنچے تھے۔ ’مجھ پر ایس ایچ او نے تشدد کیا، انگلی توڑ دی، میرے سر پرچوٹ بھی آئی ہے۔‘
کراچی بار کے صدرعامر نواز وڑائچ کا اس معاملے پر کہنا ہے کہ وکیل کورٹ آرڈر لے کر کار ریلیز کرانے آئے تھے، پولیس کی جانب سے عدالتی احکامات ماننے سے انکار کیا گیا، پولیس نے وکلا کے ساتھ بدتمیزی کی اور ان پر پر لاٹھی چارج کیا، پولیس نے ہوائی فائرنگ بھی کی۔
پولیس کا مؤقف کیا ہے؟
اس معاملے پر پولیس حکام کا مؤقف ہے کہ ایک سادہ لباس شخص ایس ایچ او کے سائیڈ روم میں آیا، سادہ لباس شخص وکیل کے یونیفارم میں تھا نہ ہی اپنا تعارف کرایا، گاڑی ریلیز کا کیس تھا جو ایس ایچ او کے دائرہ کار میں نہیں آتا، ایس ایچ او نے وکیل کو کمرے سے باہر جانے کا کہا تو اس نے گالم گلوچ کرنا شروع کردی۔
پولیس کے مطابق سادہ لباس شخص نے ایس ایچ او دھمکی دی کہ اب دیکھنا کتنے لوگ آئیں گے، کچھ دیر بعد بڑی تعداد میں وکلا آئے جنہوں نے تھانے کے گیٹ پر حملہ کردیا، وکلا کے حملے میں پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔
ایس ایچ او کی تنزلی، مقدمہ درج
وکلا کی جانب سے 2 بار احتجاج اور سخت رد عمل کے بعد ایس ایچ او تھانہ گلستان جوہرکی تنزلی کر دی گئی ہے اور ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق ایس ایچ او تھانہ گلستان جوہر کے خلاف مقدمے میں دہشتگردی، اقدام قتل، تشدد اور دیگر دفعات شامل کی گئی ہیں، ابتدائی انکوائری میں ایس ایچ او کے خلاف ثبوت بھی سامنے آئے ہیں۔
ایس ایچ او کو معطل اور ضابطے کی کارروائی کی جارہی ہے، واقعہ منگل کی رات ساڑھے 8 بجے پیش آیا جبکہ مقدمے میں ایس ایچ او سمیت 15 اہلکار بھی نامزد کیے گئے ہیں۔