کیا دنیا کا مستقبل معذوری ہے؟

جمعہ 19 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

عالمی ادارہ صحت اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ سال دنیا بھر میں بیماریوں کے خلاف حفاظتی ٹیکے لگوانے والے بچوں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا اور 2019 کے مقابلے میں 27 لاکھ بچے اس تحفظ سے محروم رہے۔

گزشتہ سال ویکسین سے محروم رہنے والے بچوں کی تعداد بڑھ کر ایک کروڑ 45 لاکھ تک جا پہنچی جو کہ 2022 میں ایک کروڑ 39 لاکھ تھی۔ ان میں نصف سے زیادہ بچوں کا تعلق ایسے 31 ممالک سے ہے جو جنگوں اور معاشی بدحالی کا شکار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : دُنیا کو خسرے کے شدید خطرے کا سامنا، عالمی ادارہ صحت نے خبردار کردیا

عالمی ادارہ صحت عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو ایچ او) اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کی مشترکہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2023 میں 14 بیماریوں کے خلاف حفاظتی ٹیکوں یا ویکسین کے ذریعے تحفظ مہیا کرنے کی صورتحال میں پشرفت دیکھنے کو ملی، یہ حالات اِس وقت زیادہ سے زیادہ بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے، اس معاملے میں متواتر بہتری اور ویکسین کی فراہمی کے نظام کو مضبوط کرنے کا تقاضا کرتے ہیں۔

خناق، تشنج اور کالی کھانسی، کووڈ وبا پہلے کے مقابلے میں کوئی اضافہ نہیں ہوا

رپورٹ کے مطابق 2023 میں خناق، تشنج اور کالی کھانسی (ڈی ٹی پی) کی ویکسین کی 3 خوراکیں لینے والے بچوں کی تعداد 84 فیصد (10 کروڑ 80 لاکھ) رہی اور اس میں کووڈ وبا سے پہلے کے مقابلے میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، گزشتہ سال 65 لاکھ بچے ‘ڈی ٹی پی’ ویکسین کی تیسری خوراک سے محروم رہے جو پیدائش کے بعد اور ابتدائی بچپن میں ان بیماریوں سے بچنے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں : ’ایسٹرا زینیکا‘نے کووڈ 19ویکسین کیوں واپس لینا شروع کردی؟

رپورٹ کے مطابق 2022 کے بعد دنیا بھر میں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کے عمل میں کوئی بہتری نہیں آئی، اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اس حوالے سے صورتحال 2019 کی سطح پر بھی بحال نہیں ہوسکی۔ یہ حالات طبی خدمات کی فراہمی اور اس میں لاحق انتظامی مسائل، ویکسین لگوانے سے ہچکچاہٹ اور اس تک عدم مساوی رسائی کی نشاندہی کرتے ہیں۔

’بہت سے ممالک میں بہت سے بچے حفاظتی ٹیکوں سے محروم ہیں‘

یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے اس حوالے سے کہا ہے کہ یہ رحجانات اس حقیقت کے عکاس ہیں کہ بہت سے ممالک میں بہت سے بچے حفاظتی ٹیکوں سے محروم ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : ڈاکٹر ثانیہ نشتر گلوبل ویکسین الائنس ’گاوی‘ کی چیف ایگزیکٹو آفیسر مقرر

ان کا کہنا ہے کہ اس فرق کو ختم کرنے کے عالمی سطح پر مربوط کوششوں کی ضرورت ہے،اس مقصد کے لیے حکومتوں، شراکت داروں اور مقامی رہنماؤں کی جانب سے بنیادی طبی سہولیات کی فراہمی اور مقامی سطح پر طبی کارکنوں پر سرمایہ کاری درکار ہے۔ اس طرح سب بچوں کو حفاظتی ٹیکے میسر آئیں گے اور مجموعی طبی صورتحال بہتر ہو سکے گی۔

3 کروڑ 50 لاکھ بچے خسرے کے خلاف خاطرخواہ تحفظ سے محروم

‘ڈبلیو ایچ او’ اور یونیسف کی جاری کردہ معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مہلک خسرے کے خلاف حفاظتی ٹیکے لگوانے والے بچوں کی تعداد میں بھی اضافہ نہیں ہوا اور دنیا بھر میں تقریباً 3 کروڑ 50 لاکھ بچے اس بیماری کے خلاف خاطرخواہ تحفظ سے محروم ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : ایچ آئی وی، دوسری ویکسین کی آزمائش بھی ناکام ہو گئی

گزشتہ پانچ برس کے دوران 103 ممالک میں خسرے کی وبا پھوٹی جبکہ دنیا بھر کے نومولود بچوں کی 3 تہائی تعداد کا تعلق انہی ممالک سے تھا، ان ممالک میں حفاظتی ٹیکوں تک رسائی میں کمی (80 فیصد یا اس سے کم) اس کا بڑا سبب رہا۔ اس سے برعکس، 91 ممالک میں مطلوبہ تعداد میں بچوں کو خسرے کی ویکسین دی گئی جس کے باعث وہاں اس بیماری کی کوئی وبا نہیں پھوٹی۔

2023 میں صرف 83 فیصد بچوں کو خسرے کی پہلی خوراک میسر آئی تھی جبکہ دوسری خوراک لینے والے بچوں کی تعداد میں 2022 کے مقابلے میں معمولی سا اضافہ ہوا جو 74 فیصد پر پہنچ گئی۔

یہ بھی پڑھیں : کورونا ویکسین بنانے والے روسی سائنسدان کو گلا گھونٹ کر قتل کردیا گیا

یاد رہے کہ خسرے کی وبا اور اس سے ہونے والی غیرضروری اموات کو روکنے کے لیے کم از کم 95 فیصد بچوں کو اس کی ویکسین دینا ضروری ہے اور اسی صورت خسرے کا خاتمہ کرنے کے اہداف حاصل ہو سکتے ہیں۔

’خسرے کا پھیلنا خطرے کی علامت‘

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے کہا ہے کہ خسرے کا پھیلنا خطرے کی علامت ہوتی ہے۔ یہ بیماری ایسی جگہوں پر حملہ آور ہوتی ہے جہاں بچوں کو اس سے حفاظت کے ٹیکے نہ لگائے گئے ہوں اور یہ سب سے پہلے کمزور ترین بچوں کو نشانہ بناتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں : ڈاؤ یونیورسٹی کا چین سے اینٹی ریبیز ویکسین درآمد کرنے کا فیصلہ

ان کا کہنا ہے کہ یہ ایسا مسئلہ نہیں کہ جس کا حل نہ نکل سکے، خسرے کی ویکسین سستی ہے اور اسے انتہائی دشوار گزار جگہوں پر بھی پہنچایا جاسکتا ہے، ‘ڈبلیو ایچ او’ ممالک کو اس ویکسین تک رسائی بڑھانے اور خطرے کے دھانے پر موجود بچوں کو جلد از جلد تحفظ میں مدد دینے کے لیے اپنے تمام شراکت داروں کے ساتھ کام کرنے کا عزم رکھتا ہے۔

ایچ پی وی ویکسین، اچھی خبر

‘ڈبلیو ایچ او’ اور یونیسف کی جاری کردہ معلومات سے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کے معاملے میں حوصلہ افزا پیش رفت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ رحم کی رسولیوں (ایچ پی وی)، گردن توڑ بخار، نمونیے، پولیو اور روٹا وائرس سمیت متعدد بیماریوں کی نئی ویکسین متعارف کرائے جانے سے ان کے خلاف تحفظ میں بہتری آئی ہے۔ اس حوالے سے ویکسین اتحاد ‘گاوی’ کی مدد سے حفاظتی ٹیکے حاصل کرنے والے 57 ممالک میں یہ صورتحال خاص طور پر نمایاں ہے۔

مثال کے طور پر دنیا بھر میں ایچ پی وی ویکسین کی کم از کم ایک خوراک لینے والی لڑکیوں کی تعداد گزشتہ سال 27 فیصد تک پہنچ گئی جو 2022 میں 20 فیصد تھی۔ یہ ویکسین خواتین کو رحم کے کینسر سے تحفظ مہیا کرتی ہے۔

امیر اور غریب ممالک میں تفاوت

گاوی کی چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر ثانیہ نشتر کا کہنا ہے کہ ایچ پی وی ویکسین کا شمار گاوی کے پاس موجود مؤثر ترین ویکسین میں ہوتا ہے اور یہ نہایت خوشی کی بات ہے کہ اب پہلے سے کہیں بڑی تعداد میں لڑکیوں کو یہ ویکسین میسر ہے۔

یہ بھی پڑھیں : برطانیہ: کورونا کے دوران ناقص حکمت عملی کے باعث زیادہ اموات ہوئیں، انکوائری رپورٹ

تاہم اب بھی بلند درجے کی آمدنی والے ممالک میں 56 فیصد جبکہ کم اور متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک میں 23 فیصد لڑکیوں کو ہی ایچ پی وی میسر ہے۔ اس بیماری کو صحت عامہ کے لیے خطرہ بننے سے روکنے کے لیے 90 فیصد لڑکیوں تک اس کی رسائی ضروری ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp