سپریم کورٹ میں زیر التوا فوجداری مقدمات کے بیک لاگ کو ختم کرنے کے لیے ایڈہاک ججوں کی تقرری کے منصوبے نے عدلیہ میں مشکل صورتحال پیدا کردی ہے، یہ بات سامنے آئی ہے کہ کس طرح قانونی چارہ جوئی کرنے والے، خاص طور پر اپنے کیسز کی سماعت کے لیے درخواست دائر کرنے والے قیدی سسٹم کی نااہلی کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں، ایک ایسے نظام میں جہاں انصاف میں زیادہ تر تاخیر ہوتی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کی 10 جولائی کی سپلیمنٹری کاز لسٹ کے مطابق جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس ملک شہزاد احمد خان پر مشتمل 3 رکنی بینچ 45 ’جیل پٹیشنز‘ کی سماعت کے لیے مقرر تھا، تاہم فہرست میں شامل اپیل کنندگان میں سے کم از کم 10 سپریم کورٹ کی جانب سے ان کی درخواستوں پر سماعت کرنے سے پہلے ہی انتقال کر چکے تھے۔
یہ بھی پڑھیں : سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمات کی تعداد بلند ترین سطح پر پہنچ گئی
ایک ماہ قبل اسی بینچ نے اسی طرح کی 50 درخواستوں پر سماعت کی تھی، جس سے صرف یہ نتیجہ نکلا کہ مجرموں میں سے 12 کی موت ہوچکی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زیادہ تر قیدیوں نے 2017 میں پٹیشنز دائر کی تھیں، کچھ اس کے بعد بھی دائر کی گئیں، تاہم ان میں سے زیادہ تر کو رواں سال مئی یا جولائی میں سماعت کے لیے مقرر کیا گیا تھا، عدالت کی طرف سے پہلی بار تمام ’جیل پٹیشنز کو سماعت کے لیے مقرر کیا گیا، اور چونکہ یہ بے اثر ہو گئی تھیں، اس لیے بعد میں ان کو نمٹا دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں : جیلوں میں قیدیوں کو اب سے لیموں پانی اور لسی ملا کرے گی؟
اگرچہ متعدد مجرم جن کے مقدمات کی سماعت بینچ نے کی تھی، پہلے ہی مختلف تاریخوں پر رہا ہو چکے تھے، لیکن ’جیل پٹیشنز‘ دائر کرنے والے درخواست گزاروں کو پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی مختلف دفعات کے تحت عمر قید کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، جس میں قتل یا عصمت دری کے الزامات بھی شامل تھے۔
جیل پٹیشنز
اسلام آباد بار کونسل کے وائس چیئرمین قاضی عادل نے ڈان اخبار سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جیل پٹیشنز سے پتہ چلتا ہے کہ مجرم نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے دوبارہ اپیل دائر کی تھی۔
’دیوانی مقدمات کے برعکس ملزم یا مجرم کو کوئی معاوضہ نہیں دیا جاسکتا‘
فوجداری مقدمات میں مہارت رکھنے والے قاضی عادل نے کہا کہ جیل کی ان درخواستوں کی ہمیشہ ہنگامی بنیادوں پر سماعت کی جانی چاہیے کیونکہ دیوانی مقدمات کے برعکس ملزم یا مجرم کو کوئی معاوضہ نہیں دیا جاسکتا، جب کہ وہ زیادہ تر وقت جیل میں گزارچکے ہوتے ہیں یا پھر سزا کی مدت کے دوران ہی ان کی موت ہوجاتی ہے، اور بعد میں اپیل کے مرحلے پر انہیں بے قصور قرار دیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : برطانیہ میں قیدیوں کی حوالات کرایے پر لگا دی گئی، تصاویر وائرل
عام طور پر، جیل سپرنٹنڈنٹ کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی قیدی کو کاغذ کے ٹکڑے پر ایک سادہ درخواست جمع کرانے میں سہولت فراہم کرے اگر اسے یقین ہے کہ مجرم کے پاس عدالتوں میں اپنی بے گناہی کی درخواست کرنے کے لیے کوئی نجی وکیل میسر نہیں ہوتا، ایسے معاملات میں جیل پٹیشنز موصول ہونے کے بعد سپریم کورٹ کا دفتر جیل پٹیشنز کے تحت ایک نمبر دے کر فائل تیار کرتا ہے جس میں درخواست گزار کے دفاع کے لیے ریاستی وکیل کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔
وکیل نے افسوس کا اظہار کیا کہ گزشتہ ہفتے اسی بینچ نے راولپنڈی میں سابق فوجی آمر پرویز مشرف پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات کرنے والے انسپکٹر راجہ ثقلین کے 2004 کے قتل کے جرم میں قید 4 افراد کو بری کر دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں : مایوس قیدی کا نواز شریف کے نام پیغام
سپریم کورٹ نے ارشد ستی، طاہر عباسی اور قاری یونس کو کمزور شواہد کی بنیاد پر بری کیا، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک ملزم عید محمد جیل میں ہی انتقال کر گیا۔
انصاف کے منتظر قیدی، جو انتقال کرگئے
رپورٹ کے مطابق 10 جولائی کی ضمنی کاز لسٹ میں یہ انکشاف ہوا کہ محمد عارف، جسے پی پی سی کی دفعہ 376(1) (عصمت دری سے متعلق) کے تحت 25 سال کی سزا سنائی گئی تھی، 14 اکتوبر 2018 کو انتقال کر گئے، جب ان کی 2017 کی جیل پٹیشنز پر سماعت ہوئی، اسی طرح عمر قید کا سامنا کرنے والا محمد بوٹا 7 ستمبر 2021 کو اس وقت انتقال کر گیا تھا۔
2017 میں جیل پٹیشن دائر کرنے والے عمر قید کا سامنا کرنے والے سیف اللہ کی 19 اگست 2022 کو موت ہو گئی تھی، فلخ شیر کا انتقال 7 جنوری 2018 کو ہوا، محمد رمضان 28 مارچ 2020 کو انتقال کر گئے، عبدالرحمن کا انتقال 6 جولائی 2020 کو ہوا، معین اختر 8 اگست 2023 کو انتقال کر گئے، بخش علی کا انتقال 25 جنوری 2023 کو ہوا، پیر بخش کا انتقال 22 مارچ 2021 کو ہوا اور قائم محمد کا انتقال 30 اکتوبر 2023 کو ہوا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 28 مئی کی سپلیمنٹری کاز لسٹ میں بتایا گیا کہ عمر قید کا سامنا کرنے والے محمد یونس کا انتقال 29 مئی 2023 کو ہوا، شوکت علی یکم نومبر 2020 کو انتقال کر گئے اور رشید احمد کا انتقال یکم مارچ 2022 کو ہوا، جبکہ ان سب کی جیل اپیلیں 2018 کی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : اپنوں سے ملاقات، قیدیوں کی بھی عید ہوگئی
اسی طرح عبدالخالد 8 اکتوبر 2022 کو انتقال کر گئے، محمد اسلم 3 فروری 2022 کو انتقال کر گئے، اور عاقب کا انتقال 23 جولائی 2021 کو ہوا، جب کہ بابو نے 2019 میں جیل پٹیشن دائر کی تھی اور وہ 7 دسمبر 2021 کو انتقال کرگئے۔
محمد امین کا انتقال 19 نومبر 2021 کو ہوا، حالانکہ انہوں نے 2020 میں جیل پٹیشن دائر کی تھی، عبدالغفار نے بھی 2020 میں اپیل دائر کی تھی لیکن 21 اکتوبر 2022 کو انتقال کر گئے۔
2021 میں اپیل دائر کرنے والے لیاقت علی کا انتقال 2 نومبر 2021 کو ہوا، محمد اکرم نے 2020 میں اپنی درخواست دائر کی لیکن 8 جون 2024 کو ان کا انتقال ہو گیا، غلام فرید 29 جولائی 2023 کو اپنی اپیل دائر کرنے کے 3 سال بعد انتقال کر گئے، 2018 میں اپیل دائر کرنے والے محمد مراد 8 اپریل 2024 کو انتقال کر گئے تھے۔